قومی احتساب بیورو نے بحریہ ٹاؤن کراچی، لاہور، تخت پڑی، نیو مری گولف سٹی اور اسلام آباد میں کثیر المنزلہ رہائشی و کمرشل جائیدادوں کو سر بمہر کر دیا۔ جبکہ بحریہ ٹاؤن کے سیکڑوں اکاؤنٹس منجمد کرتے ہوئے درجنوں گاڑیاں بھی ضبط کرلی گئی ہیں۔ایک بیان میں نیب نے شہریوں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ بحریہ ٹاؤن کے رہائشی و کمرشل منصوبوں میں سرمایہ کاری سے گریز کریں۔نیب حکام کا کہنا ہے کہ مخصوص عناصر ملک ریاض کے دبئی پروجیکٹ میں رقوم منتقل کر رہے ہیں، ملک ریاض کو بیرون ملک سے واپس لانے کے لیے بھرپور کارروائی کا آغاز کر دیا گیا۔حالیہ کارروائیوں میں بحریہ ٹاؤن کی کراچی، لاہور، تخت پڑی، نیو مری/گالف سٹی اور اسلام آباد میں متعدد کمرشل اور رہائشی املاک کو سیل کر دیا گیا، جن میں کثیر المنزلہ کمرشل عمارتیں بھی شامل ہیں، مزید برآں بحریہ ٹاؤن کے سیکڑوں بینک اکاؤنٹس منجمد اور گاڑیاں ضبط کرلی گئی ہیں.منگل کو راولپنڈی کی احتساب عدالت میں بحریہ ٹاؤن کے مبینہ ناجائز قبضوں سے متعلق ابتدائی سماعت ہوئی ہے۔عدالت نے ملک ریاض ان کے بیٹے علی ریاض اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کو بھی پیشی کے نوٹس جاری کر رکھے تھے تاہم ان میں سے کوئی بھی ملزم عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوا۔ عدالتی کارروائی کے بعد نیب نے ایک تفصیلی اعلامیہ جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ نیب نے دیگر سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر مفرور ملزمان کو پاکستان واپس لانے کے لیے بھرپور کوششیں شروع کر دی ہیں.نیب کا کہنا ہے کہ بحریہ ٹاون راولپنڈی میں ملک ریاض کی کئی جائیدادوں کو سرکاری تحویل میں لیا گیا ہے۔بحریہ ٹاؤن کے ترجمان کرنل ریٹائرڈ خلیل الرحمان نے بتایا کہ یک طرف احتساب عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے جہاں ہم جا کر اپنا جواب دے رہے ہیں اور دوسری طرف بحریہ کے خلاف یکطرفہ کارروائی کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا ہے۔اعلامیہ کے مطابق این سی اے کیس میں عدالتی مفرور کی حیثیت سے دبئی میں مقیم ملک ریاض احمد نے حال ہی میں وہاں لگژری اپارٹمنٹس کی تعمیر کا نیا منصوبہ شروع کیا ہے۔ نیب کے پاس بادی النظر میں اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد اس منصوبے میں سرمایہ کاری کے لیے اپنی رقم دبئی منتقل کرکے اس عمل میں ملک ریاض احمد کی مجرمانہ مدد کر رہے ہیں۔