اسرائیل کا ’سیمسن آپشن‘ کیا ہے اور کتنی تباہی ہوگی

صیہونی قابض ریاست اسرائیل نے اپنا ”گریٹر اسرائیل“ کا خواب پورا کرنے کیلئے خطے میں مختلف محاذوں پر جنگ چھیڑ دی ہے۔

پہلے صرف غزہ اور شام میں کھلے عام بربریت کا مظاہرہ کیا جاتا تھا، لیکن اب یہ ظلم لبنان تک پہنچ گیا ہے اور ایران سے بھی ٹکر لے لی گئی ہے۔

گوکہ ایران نے کرارا جواب دیتے ہوئے اسرائیل پر 400 کے قریب بیلسٹک میزائل داغے اور جنگ کو مزید ہوا نہ دینے کی دھمکی دی ہے، لیکن اسرائیل باز آنے کے موڈ میں نہیں ہے ۔

اور ایران کے نیوکلئیر پروگرام کو تباہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے جو کہ بڑی تباہی کا سبب بنے گا۔

اسرائیل خطے میں موجود ممالک پر قبضہ کرکے ”بنی اسرائیلیوں کی وعدہ شدہ ریاست“ قائم کرنا چاہتا ہے۔

ان ممالک میں اردن، شام، لبنان ایران عراق، ترکیہ، فلسطین، مصر اور شمالی افریقہ کے کئی علاقے شامل ہیں۔

اسرائیل اپنے اس منصوبے کو پورا کرنے کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے، جس میں آخری پڑاؤ اس کا ”سیمسن آپشن“ ہوسکتا ہے۔

اسرائیل کے اس منصوبے کے حوالے سے اطالوی فلم ساز اور تاریخ دان روبن مونوٹی نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صیہونی ریاست جنگ میں جیت حاصل کرنے کیلئے تمام حدیں لانگ سکتی ہے۔

روبن مونوٹی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ایکس“ پر لکھا کہ اسرائیل سیمسن آپشن کا استعمال جلد کرنے والا ہے۔

انہوں نے بتایا، ’اسرائیل کی قومی سلامتی کی حکمت عملی اس بنیاد پر قائم ہے کہ اسرائیل ایک بھی جنگ ہارنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔‘

انہوں نے لکھا، ’سیمسن آپشن اسرائیل کا جوہری نظریہ ہے کہ دشمن کے خلاف ہمہ جہت حملے کی صورت میں اگر دفاع ناکام ہو جائے اور آبادی کے مراکز کو خطرہ ہو تو جوہری ہتھیاروں کا استعمال کیا جائے گا‘۔

خامنہ ای نے اسرائیلی حملے سے تین روز قبل حسن نصراللہ کو لبنان سے نکل جانے کہا تھا، ایرانی ذرائع

روبن کے مطابق ’یہ نام بائبل میں موجود اسرائیلی جج سیمسن کے حوالے سے لیا گیا ہے جس نے ایک فلسطینی مندر کے ستونوں کو ہلاکر چھت کو گرا دیا تھا اور خود کو اور ہزاروں فلسطینیوں کو مار ڈالا تھا جنہوں نے اسے پکڑ لیا تھا‘۔

خیال رہے کہ اسرائیل اس بات کی تصدیق یا تردید کرنے سے انکار کرتا ہے کہ اس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں، نہ ہی یہ بیان کرتا ہے کہ وہ انہیں کس طرح استعمال کرے گا۔

اس حوالے سے اسرائیل کی جانب سے جان بوجھ کر ابہام کی پالیسی اپنائی گئی ہے جسے ”جوہری ابہام“ یا ”جوہری دھندلاپن“ کہا جاتا ہے۔

اس پالیسی نے اسرائیلی حکومت سے باہر کسی کے لیے بھی ملک کی حقیقی جوہری پالیسی کو قطعی طور پر بیان کرنا مشکل بنا دیا ہے۔

تاہم، گزشتہ برسوں میں، بعض اسرائیلی رہنماؤں نے اپنے ملک کی جوہری صلاحیت کا کھلے عام اعتراف کیا ہے اور اب کھلم کھلا جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکیاں دے رہا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں