سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر عمران خان کے آفیشل اکاؤنٹ پر جاری بیان میں کہا گیا کہ حکومت کو 31 جنوری تک کی ڈیڈ لائن دی ہے اور مذاکرات کے ساتھ ساتھ ترسیلاتِ زر کے بائیکاٹ کی مہم بھی جاری ہے۔ اگر حکومت نے ہمارے مطالبات کی منظوری میں سنجیدگی نہ دکھائی تو بائیکاٹ مہم پر دوبارہ غور کیا جا سکتا ہے۔ویب سائٹ پر جاری بیان کے مطابق عمران خان کا کہنا ہے کہ سب کو نیا سال مبارک ! 2025 حقیقی آزادی کا سال ہے، اس جعلی اور فسطائی نظام کو شکست ہو گی۔انہوں نے کہا کہ جس بھونڈے انداز میں خالد خورشید کو 34 سال قید کی سزا سنائی گئی، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ملک میں رول آف لا کا خاتمہ ہو چکا ہے اور غیر اعلانیہ بدترین آمریت کا راج ہے۔ان کا کہنا تھا کہ وکلا تحریک سے پہلے بھی ہم فوج کی سیاسی مداخلت کے خلاف بھرپور تنقید کرتے تھے لیکن تب کوئی ایجنسی اپنے شہریوں کو اس طرح سے نہیں اُٹھاتی تھی۔انہوں نے کہا کہ آئینی عدالت بنا کر پورے عدالتی نظام کو تباہ کیا گیا اور سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی باقیات کو عدالتی نظام کا قبضہ دے دیا گیا تاکہ سابق چیف جسٹس کی روایت برقرار رکھتے ہوئے عدالتی فیصلے اسٹیبلشمنٹ کے زیر اثر کروائے جا سکیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس آمرانہ دور میں شخصی آزادیوں کے خاتمے، بنیادی قانونی حقوق کی پامالیوں اور اداروں کی تباہی نے ملک کے ناصرف سماجی و سیاسی نظام بلکہ قانونی و معاشی نظام کو بھی درہم برہم کر دیا ہے۔بانی پی ٹی آئی عمران خان کا کہنا تھا کہ میرے خلاف پچھلے سال بھی 4 غیر قانونی فیصلے دئیے گئے تھے، سوموار کو القادر کیس کا فیصلہ بھی ویسا ہی توقع کر رہا ہوں، ایسے ہی لا قانونیت پر مبنی فیصلے پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔عمران خان نے کہا کہ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے یہی توقع ہے کہ وہ نیوٹرل رہیں گے کیونکہ بائیڈن نے جنرل (ر) باجوہ کے اکسانے پر ہماری حکومت کو عدم اعتماد کے ذریعے ہٹا کر واضح مداخلت کی تھی جو ساری دنیا جانتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ جیسے ادارے اسی لیے ہیں، دنیا کے تمام ذی شعور انسان بنیادی حقوق کی پامالی کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں ۔