تحریر : سراج احمد
ان دنوں سندھ ڈیلٹا کے لوگ بہت خوش ہیں کیونکہ سیلابی پانی سے تمر کے جنگلات بڑھے گے جھینگوں اور مچھلیوں کی پیداوار بڑھے گی اور میٹھا پانی خوشحالی لائے گا تاہم ملک میں نام نہادانشوروں نے یہ بھی کہنا شروع کردیا ہے پاکستان میں ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے اتنا پانی سمندر میں گر کر ضایع ہوجائے گا اوراگر ڈیم ہوتے تو یہ پانی کوٹری ڈاؤن میں ضائع نہ ہوتا۔ لیکن حقیقت یہ کہ ڈیلٹا کے علاقے میں میٹھے پانی اور سمندری پانی کے ملاپ سے ایک خاص ماحولیاتی نظام تشکیل پاتا ہے جس میں مینگرووز کے جنگلات، مختلف اقسام کی مچھلیاں، پرندے، اور دیگر آبی حیات پروان چڑھتی ہے۔ لیکن جب دریا میں پانی کی مقدار کم ہو جاتی ہے تو سمندری پانی اندرونی علاقوں میں گھس آتا ہے جس سے زمین کی زرخیزی متاثر ہوتی ہے۔ زراعت، ماہی گیری اور دیگر معاشی سرگرمیاں تباہ ہو جاتی ہیں ۔ دنیا میں صرف دو دریا ہے جو سمندر سے لڑ کر ڈیلٹا بناتے ہیں جن میں ایک دریائے نیل ہے جبکہ دوسرا دریائےسندھ ہےلیکن دریائے سندھ کی ڈیلٹا بنانے کی صلاحیت زیادہ ہے ایک اندازے کے مطابق جب دریائے سندھ میں طغیانی آتی تھی تو اس طغیانی کے 100 دنوں میں یہ ریت کے 11کروڑ 90 لاکھ معکب گز سمندر کی طرف لے چلتا ہے۔ اگر اس ریت کا مقابلہ ہم نیل ندی سے کریں جو خود ایک زیادہ ریت لانے والا دریا ہے تو یہ پورے ایک برس میں 4 کروڑ معکب گز ہے اور ہم جانتے ہیں کہ دریائے سندھ میں ریت کی مقدار دریائے نیل سے تین گنا زیادہ ہے۔ سندھ کا ڈیلٹا پاکستان کے جنوب میں ایک نہایت اہم ماحولیاتی اور معاشی نظام ہے جو دریائے سندھ کے پانی سے جُڑا ہوا ہے۔ صدیوں سے یہ علاقہ نہ صرف حیاتیاتی تنوع کا مرکز رہا ہے بلکہ لاکھوں افراد کے معاش کا بھی ذریعہ ہے۔ تاہم گزشتہ چند دہائیوں میں پانی کی شدید قلت نے سندھ کے ڈیلٹا کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ یہ قلت قدرتی عوامل کے ساتھ ساتھ انسانی مداخلت، ڈیموں کی تعمیر، پانی کی غیر منصفانہ تقسیم اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق، قدرتی ڈیلٹا کو زندہ رکھنے کیلئے سالانہ تقریباً 10ملین ایکڑ فٹ پانی دریا سے سمندر میں گرنا ضروری ہے مگر بدقسمتی سے 1990ء کے بعد سے یہ مقدار مستقل کم ہو رہی ہے۔ بعض برسوں میں تو یہ مقدار 1ملین ایکڑ فٹ سے بھی کم رہی جس کے نتیجے میں سمندر نے سندھ کے اندرونی علاقوں میں تقریباً 2.5ملین ایکڑزمین کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ٹھٹھہ، سجاول، اور بدین کے علاقے خاص طور پر اس تباہی کا شکار ہوئے ہیں جہاں پہلے زرخیز زمینیں تھیں اب وہاں سمندری پانی کا راج ہے۔ سندھ کے ڈیلٹا کی تباہی کا سب سے بڑا سبب اوپر کے علاقوں میں پانی کا روک لیا جانا ہے۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بڑے ڈیموں اور بیراجوں کی تعمیر نے سندھ کے حصے کا پانی کم کر دیا ہے۔ ایک وقت تھا جب سندھ کے ساحلی علاقوں میں6لاکھ ہیکٹرز تک مینگرووز کے جنگلات پھیلے ہوئے تھےمگر اب یہ صرف 80 ہزار ہیکٹر تک محدود ہو گئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پانی کی قلت کی وجہ سے سندھ میں 10لاکھ ایکڑسے زیادہ زرعی زمین ناقابلِ کاشت ہو چکی ہے جس کی وجہ سے ہزاروں کسانوں کو نقل مکانی کرنی پڑی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی بھی سندھ کے ڈیلٹا کو مزید کمزور کر رہی ہے پانی کی روکنے کی داستان کی ابتدا 1830ء میں ہوئی جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے یہاں آب پاشی کا نظام بنایا کہ زراعت زیادہ ہو اور اُن کے کارخانوں کو خام مال مسلسل ملتا رہے۔ 1932ء میں انگریزوں نے سکھر بیراج تعمیر کیا۔ یہ سمجھیں کہ دریا کی خوبصورت دیوانگی کو روکنے کی یہ پہلی کوشش تھی۔ پھر 1955 میں کوٹری بیراج بنا 1967ء میں منگلا اور پھر 1976ء میں تربیلا ڈیم بنا۔ ان تمام منصوبوں کے منفی اثرات انڈس ڈیلٹا پر پڑنے تھے 1958ء میں کوٹری بیراج مکمل ہونے کے بعد 3500 کلومیٹر پر پھیلی ہوئی انڈس ڈیلٹا 250 کلومیٹر تک سُکڑ گئی۔ پانی صرف نام کو سمندر کو جاتا تھا۔ میٹھے پانی کی کمی کی وجہ سے تمر کے جنگل اجڑ گئے چاول کی فصلیں دینے والی زمینیں سفید نمک میں بدل گئیں دریائے سندھ کا میٹھا پانی جب سمندر میں گرتا تھا تو یہ ایک قدرتی نظام کے تحت کئی اقسام کی مچھلیوں کی افزائش میں مدد دیتا تھا۔ مگر اب چونکہ سمندری پانی زیادہ اندر آ چکا ہے تو ان مچھلیوں کی نسلیں ختم ہونے کے قریب ہیں۔ ٹھٹھہ اور بدین کے ماہی گیروں کے مطابق وہ پہلے روزانہ 20 سے 30 کلو مچھلی پکڑتے تھے مگر اب یہ مقدار 5 سے 10 کلوتک رہ گئی ہے جس سے ان کی آمدنی میں شدید کمی آئی ہے۔اس کے علاوہ سندھ کے ڈیلٹا میں پانی کی کمی نے زرعی پیداوار پر بھی منفی اثر ڈالا ہے۔ سندھ کے ساحلی علاقوں میں چاول، گنا، اور دیگر اجناس اُگائی جاتی تھیں مگر اب وہاں کی زمین سیم و تھور کا شکار ہو چکی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، پانی کی قلت کی وجہ سے سندھ میں 10لاکھ ایکڑسے زیادہ زرعی زمین ناقابلِ کاشت ہو چکی ہےجس کی وجہ سے ہزاروں کسانوں کو نقل مکانی کرنی پڑی ہے۔ 1980 ریونیو ڈپارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطابق 12 لاکھ زرعی زمین سمندر کے نذر ہوگئی تھیں اور اب تک ڈیلٹا کی 35 لاکھ زرعی زمین یا تو سمندر نگل گیا ہے یا سمندر کے کھارے پانی کی وجہ سے زمینوں نے اپنی زرخیزی گنوادی ہے۔ یہاں تک کہ گھاس کا ایک تنکا تک نہیں اُگتا۔ لاکھوں لوگوں کو انتہائی مجبوری کی حالت میں نقل مکانی کرنی پڑی ہے۔ جھیلوں کا کلچر برباد ہوا ہے جبکہ جنگلی حیات کی سیکڑوں نسلیں تباہ ہوگئی ہیں۔ یہ ایک سانحے سے کم نہیں ہے۔ماحولیاتی تبدیلی بھی سندھ کے ڈیلٹا کو مزید کمزور کر رہی ہے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے سمندری سطح میں اضافہ ہو رہا ہے اور اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی ماہرین کے مطابق اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو 2050 تک کراچی اور سندھ کے دیگر ساحلی علاقے شدید خطرے میں آ سکتے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے حکومت، آبپاشی کے ماہرین، ماحولیاتی ماہرین اور سول سوسائٹی کے درمیان یہ بات زیربحث ہے کہ انڈس ڈیلٹا کے لیے کوٹری ڈاؤن اسٹریم سے کتنے پانی کی ضرورت ہے۔ ماحولیات پر کام کرنے والی عالمی تنظیم آئی یو سی این کی تحقیق کے مطابق، تمر کے جنگلات اور سمندر کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے 2 کروڑ 70 لاکھ ایکڑ فٹ پانی کی ضرورت ہے جبکہ 1991 کے پانی کے معاہدے کے مطابق ڈاؤن اسٹریم میں ایک کروڑ ایکڑ فٹ پانی چھوڑا جانا تھا مگر اس پر بھی عمل نہیں کیا گیامگر بدقسمتی سے 1990ء کے بعد سے یہ مقدار مستقل کم ہو رہی ہے۔ بعض برسوں میں تو یہ مقدار 1ملین ایکڑ فٹ سے بھی کم رہی یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب ہندوستان اور پاکستان کے دریائوں میں سیلابی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو ہندوستان یہ سیلابی پانی حتیٰ المقدور پاکستان بھیج دیتا ہے جبکہ یہاں بالائی علاقے اپنے دریا میں آنے والا سیلابی پانی اور ہندوستان کی طرف سے بھیجا جانے والا پانی زیریں علاقوں کو بھیج دیتے ہیں اس کے نتیجے میں سندھ میں تباہی آجاتی ہے اور جب پاکستان کے دریائوں میں پانی کی شدید قلت پیدا ہوجاتی ہے تو بالائی علاقوں کے مہربان یہ قلت سندھ منتقل کردیتے ہیں اور اس وقت جو بھی پانی دستیاب ہوتا ہے وہ ترجیحی طور پر وہاں استعمال کیا جاتا ہے سیلاب کی بدولت موجودہ دنوں دریائے سندھ سے تین لاکھ کیوسک جو اندازاً 60 لاکھ ایکڑ فٹ بنتا ہے وہ مختلف راستوں سے سمندر میں داخل ہو رہا ہے۔ یہ تقریباً 80 کلومیٹر سے زیادہ علاقہ ہے جس سے میٹھا پانی سمندری پانی کی جگہ لے لیتا ہے۔جہاں جہاں تک یہ میٹھا پانی جائے گا وہاں جھینگے اور دوسری مچھلیوں کی پیداوار میں بے تحاشا اضافہ ہوگا۔ مطلب کے تین ماہ کے بعد سمندر سے مچھلی پکڑنے کا تناسب گزشتہ برس اگر 30 فیصد تھا تو وہاں اب 90 فیصد ہوگا جس سے مقامی لوگوں پر معاشی حوالے سے اچھے دن آنے والا ہیں۔
