عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کریش

عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کریش ، برطانوی اور امریکی خام تیل کی قیمتیں تقریباً 3 سال بعد 70 ڈالرز فی بیرل کی سطح سے نیچے آ گئیں۔ تفصیلات کے مطابق عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں زبردست کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق تقریباً 3 سال بعد پہلی مرتبہ عالمی مارکیٹ میں امریکی اور برطانوی خام تیل کی قیمتیں 70 ڈالرز فی بیرل کی سطح سے نیچے گر گئی ہیں۔
برطانوی خام تیل کی فی بیرل قیمت 69 ڈالرز جبکہ امریکی خام تیل کی قیمت 66 ڈالرز ہو گئی، جو کہ دسمبر 2021 کے بعد خام تیل کی کم ترین قیمت ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق عالمی سطح پر خام تیل کی کھپت میں کمی قیمتوں میں کمی کا باعث بن رہی ہے۔ اوپیک ممالک کی جانب سے تیل کی پیداوار میں کمی کا سلسلہ برقرار رکھنے کے باوجود قیمتوں میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔

دوسری جانب جے ایس گلوبل کے مطابق عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں کے گرنے کی وجہ سے حکومت پاکستان کو موقع ملا اور اس نے پیٹرولیم مصنوعات پر عائد ٹیکس یعنی پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی میں مزید دس روپے کا اضافہ کرتے ہوئے اسے 70 روپے فی لیٹر کردیا تاکہ رواں مالی سال کے دوران ایک کھرب 28 ارب روپے محصولات کا ہدف حاصل کرنے میں سہولت ہوسکے۔جے ایس گلوبل کی ہیڈ آف ریسرچ امبرین سورانی کے مطابق خام تیل کی فی بیرل قیمتوں میں پانچ ڈالر کمی کے نتیجے میں پاکستان کے سالانہ تیل کے درآمدی بل میں 90 کروڑ ڈالر کی کمی واقع ہوتی ہے جس کے نتیجے میں افراط زر میں 35 بنیادی پوائنٹس مزید گھٹتے ہیں اور اس کے نتیجے میں حکومت کو پی ایل ڈی میں مزید اضافے کی گنجائش ملتی ہے تاکہ مالیاتی توازن برقرار رکھ سکے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ رواں کھاتوں کے خسارے میں جو کمی واقع ہوئی ہے اور اگست کے دوران یہ گزشتہ گیارہ ماہ کی کم ترین سطح پر ہے جبکہ رواں مالی سال کے ابتدائی دو ماہ کے دوران بھی اس میں 4 فیصد کی کمی نظر آتی ہے تو اس کی بنیادی وجوہ میں بنیادی درآمدات کو ترجیح دینا اور موجودہ معاشی صورت حال کے باعث طلب میں کمی بھی ہے۔اپنی رپورٹ میں عنبرین سورانی نے کہا کہ تیل کی درآمدی بل میں کمی کی وجہ سے جاری کھاتوں کا خسارے میں کمی کا تخمینہ 80 کروڑ ڈالر لگایا گیا ہے جو کہ مجموعی قومی پیداوار کا صفر اعشاریہ 2 فیصد بنتا ہے جبکہ اس سے 90 کروڑ ڈالر سالانہ کی بچت بھی ہوگی جو کہ مرکزی بینک کے باعث زرمبادلہ کے ذخائر کا تقریبا 10 فیصد بنتا ہے جو اس وقت 9 ارب 40 کروڑ ڈالر کی سطح پر ہے۔
رپورٹ کے مطابق برآمدی بل میں کمی اور زرمبادلہ کے ذخائر میں استحکام کے نتیجے میں حکومت کے پاس اگلے دو ماہ تک اشیا کی درآمدات کی سہولت حاصل رہے گی۔ رپورٹ میں امبرین سورانی کا کہنا ہے کہ امید ہے کہ رواں مالی سال 2025 کے دوران افراط زر کی شرح 9 فیصد کے آس پاس رہے گی۔

اپنا تبصرہ لکھیں