عمران خان کئی ہفتے قبل ہی علی امین گنڈاپور کو ہٹانے کافیصلہ کر چکے تھے لیکن علی امین سے ان کی آخری ملاقات میں حالات انتہا کو پہنچے جس میں انہوں نے علیمہ خان پر سنگین الزامات لگائے۔ اندرونی ذرائع نے بتایا کہ اگرچہ عمران خان کی اہلیہ اور ہمشیرہ اکثر ایک دوسرے سے اختلاف رکھتی ہیں لیکن علی امین گنڈاپور کے معاملے پر دونوں متفق تھیں کہ ان کی تبدیلی ناگزیر ہے۔ذرائع کے مطابق گنڈاپور اور بشریٰ بی بی کے درمیان اختلافات کی ابتدا گزشتہ سال اُس وقت ہوئی جب پی ٹی آئی نے اسلام آباد کے ڈی چوک کی طرف احتجاجی مارچ کا فیصلہ کیا وہی مارچ جو بعد میں پرتشدد ہو گیا گنڈاپور نے اس وقت سیکورٹی وجوہات اور حکمتِ عملی کے تحت ریلی کو سنگجانی پر روکنے کا مشورہ دیا تھا لیکن بشریٰ بی بی نے اسے رد کرتے ہوئے مارچ کو ڈی چوک تک جاری رکھنے پر اصرار کیا۔پارٹی ذرائع کے مطابق عمران خان نے 26 نومبر کے وفاقی دارالحکومت کی مارچ کے بعد ہی علی امین گنڈاپور کو ہٹانے کا فیصلہ کر لیا تھا جب وہ اچانک اسلام آباد سے غائب ہو گئے اور کارکنوں کو الجھن میں چھوڑ کر چلے گئے تھے۔اصل بحران اس وقت سامنے آیا جب گنڈاپور نے کھلے عام علیمہ خان پر الزام لگایا کہ وہ پارٹی میں تقسیم و دراڑ ڈال رہی ہیں اوریہاں تک دعویٰ کردیا کہ انہیں فوجی انٹیلی جنس کی مدد مل رہی ہے۔انہوں نے یہاں تک الزام لگایا کہ پارٹی کے اندر علیمہ خان کو آئندہ چیئرپرسن بنانے کی مہم بھی چل رہی ہے۔تاہم اندرونی ذرائع کے مطابق گنڈاپور نے خان کے واحد قابلِ بھروسہ رابطہ علیمہ خان کو چیلنج کر کے ایک سرخ لکیرعبور کر لی تھی۔بشریٰ بی بی اور علیمہ خان دونوں سے کشیدگی نے گنڈاپور کی پارٹی میں پوزیشن کو کمزور کر دیا۔ اگر بشریٰ بی بی کی باتوں کا عمران خان پر گہرا اثر تھا تو علیمہ خان کے سوشل میڈیا اثرورسوخ نے گنڈاپور کو پارٹی کے اندر ہی مجرم بنا دیا۔ کئی سینئر رہنما ان سے فاصلے پر چلے گئے اور عمران خان کے قریبی حلقے نے بھی ان کا دفاع چھوڑ دیا۔ ایک پارٹی رہنما نے کہا، علیمہ خان کے خلاف بیان کے بعد ان کے لیے واپسی ممکن نہیں تھی۔ انہوں نے عمران خان کے اردگرد موجود سب سے طاقتور لوگوں کا اعتماد کھو دیا تھا .اطلاعات کے مطابق بشریٰ بی بی نے سہیل آفریدی کو صوبے کی قیادت کے لیے نامزد کیا۔
