لاہور میں فلڈ ریلیف کیمپوں میں خواتین کیلئے واش روم نہیں. جھاڑیوں کا رخ کرنے پر مجبور

لاہور میں سیلاب کی وجہ سے بے گھر ہو کر ریلیف کیمپوں میں پناہ لینے خواتین اور بچوں کو کئی مسائل سے دوچار کر دیا۔ اس سلسلے میں خواتین کا کہنا ہے کہ ریلیف کیمپوں سے عارضی چھت تو مل گئی لیکن بیت الخلاکے مناسب انتظامات نہیں وہ کھیتوں میں جانےیا کھلی جگہ استعمال کرنے پر مجبور ہیں اگر کسی جگہ بیت الخلا موجود بھی ہےتو وہاں لمبی قطاریں لگی رہتی ہیں۔جن علاقوں میں سیلاب نےتباہی پھیلائی ہے، وہاں ہر شخص ہی پریشان ہے تاہم بےگھر ہو کر ریلیف کیمپوں میں پناہ لینےوالی خواتین اور بچوں کے مسائل اور بھی زیادہ ہیں۔دوسری جانب سیلاب زدہ علاقوں میں بچوں میں خارش اور جلدی امراض بھی پھیلنے لگے۔بھاری مون سون بارشوں اور بھارت کی طرف سے آنے والے بڑے پانی کے ریلوں نے دریائے راوی کو پھیلا دیا ہے جس نے درجنوں کنارے کی بستیوں کو ڈبو دیا ہے ہزاروں دیہاتی، جن میں زیادہ تر دہاڑی دار مزدور اور چھوٹے کاشتکار تھے اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق لاہور کے اسکولوں میں 18 امدادی کیمپ قائم ہیں جن میں کم از کم 4 ہزار 150 افراد مقیم ہیں اس وقت ساندا، بابو صابو، گلشنِ راوی اور شیرکوٹ کے 5 کیمپوں میں 900 افراد، تحصیل رائیونڈ کے علاقوں منگا ہتھر اور محلنوال کے 3 کیمپوں میں 2 ہزار 350 افراد، تحصیل راوی کے علاقوں شاہدرہ، جیا موسیٰ اور ہربو جبو میں 800 افرادجب کہ تحصیل علامہ اقبال ٹاؤن کے علاقوں چوہنگ، شاہ پور، نیاز بیگ اور مریدوال میں 100 افراد مقیم ہیں۔

لاہور میں فلڈ ریلیف کیمپوں میں خواتین کیلئے واش روم نہیں. جھاڑیوں کا رخ کرنے پر مجبور

اپنا تبصرہ لکھیں