مقدس بائبل میں کہا گیا ہے ’’کب بولنا اور کب چپ رہنا ہے اس کا ایک وقت ہوتا ہے‘‘۔ تضادستان کی سیاست میں لوگ ایک طرف کی لمبی چپ اور دوسری طرف کی مسلسل آتش بیانی سے حیران و پریشان ہیں۔
3دفعہ وزیر اعظم کا عہدہ پانے والے اور سب سے زیادہ سیاسی تجربہ رکھنے والے نواز شریف نے مسلسل چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے ہر کوئی ٹامک ٹوئیاں مارتا ہے کہ وہ دراصل کیا سوچ رہے ہیںلمبی چپ؟ دوسری طرف جیل میں قید سابق وزیر اعظم عمران خان ہر روز مسلسل آتش بیانی کرتے ہیں۔
اگر اس خبر کے صرف سیاسی پہلو کو دیکھیں تو مقتدرہ اور شہباز حکومت کو بہت بڑی کامیابی ملی ہے اور تحریک انصاف اور اسکے حامیوں کی پیش گوئیوں، تجزیوں اور کوششوں کو خوفناک شکست ہوئی ہے۔ تحریک انصاف سے وابستہ ہر دانش مند کا 8فروری کے پہلے سے لیکر آج تک مسلسل یہ تجزیہ رہا ہے کہ یہ حکومت خراب معیشت کی وجہ سے چل نہیں سکے گی.لمبی چپ ادارہ اسے قرض نہیں دیگا اور یوں حکومت معیشت کی تباہی کی وجہ سے گھر چلی جائیگی اور یوں پھرسے اقتدار تحریک انصاف کو ملے گا جو ملک کو معاشی بہتری کی طرف لے جائے گی۔ تحریک انصاف کا مفروضوں پر قائم یہ بیانیہ غلط ثابت ہو رہا ہے۔
آئی ایم ایف کے ٹیکے سے حکومت چل پڑی ہے اب سسٹم کام کرنا شروع کر دے گا۔ مشہور امریکی صحافی ران سسکنڈ نے اپنی کتاب ’’وے آف دی ورلڈ‘‘ میں لکھا ہے کہ امریکی نائب صدر ڈک چینی نے اصول پسندی کو چھوڑ کر عملیت پسندی کوترجیح دی وعدے کے باوجود بے نظیر بھٹو کا ساتھ نہ دیا جبکہ جنرل لمبی چپ مشرف کی طاقت کو مانتے ہوئے اس کا ساتھ دیا۔ اب بھی یہی صورتحال ہے عالمی ادارے اخلاقی اصولوں پر نہیں عملیت پر چلتے ہیں کیا آئی ایم ایف نے تحریک انصاف کی جانب سے قرض دیتے ہوئے شرط لگانے کی جو بات کی تھی، کسی نے سنی؟ کیا امریکی ایوانِ نمائند گان کی بھاری اکثریت سے منظور کردہ قرار داد کا عالمی ادارے آئی ایم ایف پر کوئی اثر ہوا؟ نہیں۔ آج کی دنیا اخلاقی اصولوں پر استوار نہیں ،آج بھی عملیت پسندی ہی کا راج ہے۔ وگرنہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے کیا یہ ممکن تھا؟۔
شاید اسی لئے مسٹر نواز شریف پاکستانی سیاست کے مسٹر چُپ ہیں وہ لمبے لمبے وقفے خاموش رہتے ہیں۔ بولیں بھی تو بہت کم بولتے ہیں اس مثبت خاموشی یا منفی گونگے پن سے ان کی سیاست پر صحت مند اور نقصان دہ دونوں طرح کے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ تھامس کارلائل کے بقول’’ خاموشی الفاظ سے کہیں بلند تر ہوتی ہے۔‘‘ نواز شریف اپنی اسی خاموشی کی پناہ لے کر بہت سے بحرانوں او ربہت سارے فکری تضادات کو عبور کرلیتے ہیں۔ جنرل ضیاءالحق کے بارے میں ان کی خاموشی کی وجہ سے انہیں جمہوریت کے چیمپئن بننے میں کوئی دشوا ری نہ ہوئی وگرنہ کہاں ایک آمر کی ہمراہی اور کہاں جمہوریت کے نعرے۔
پاکستان کی سیاست کے دوسرے اہم ترین فریق عمران خان مسلسل آتش بیانی کے قائل لگتے ہیں شاید وہ امریکی صدر جان ایف کینڈی کے اس قول سے متاثر ہیں کہ ’’تقریر کرنے کا واحد مقصد دنیا کو تبدیل کرنا ہے‘‘۔ جتنے نواز شریف چپ رہتے ہیں اتنے ہی زیادہ عمران خان بولتے ہیں تقریر پر تقریر اور پھر آئے دن نئےسے نیا مؤقف۔ ان کے مسلسل بیانات اور ان کی شعلہ بیانی نے ان کا مضبوط سیاسی بیانیہ بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے ان کے اپنے مخالفین کے خلاف جارحانہ بیانات نے ان کے سیاسی مخالفوں کیلئے زمین تنگ کردی ہے لگتا ہے کہ انہوںنے ہندوستان کے انقلابی اردو شاعر یعقوب راہی کا یہ شعر پڑھ رکھا ہے۔؎
بظاہر ان کے تند و تیز بیانیے نے ان کی جماعت میں جارحانہ رنگ بھر رکھا ہےمگر اسی آتش بیانی نے ان کو جیل میں پہنچانے میں بھی مدد دی ہے۔ جنرل عاصم منیر تو ان کے فین ہوتے تھے، عمران خان نے نہ صرف انہیں آئی ایس آئی چیف کےعہدےسے ہٹایا بلکہ ہمیشہ کیلئے ان کے خلاف ہو گئے، انہیں آرمی چیف بننے سے روکنے کیلئےلانگ مارچ تک کر ڈالا اور پھر خود اور اپنی جماعت کے ذریعے وہ زہر اگلا کہ مذاکرات کے راستے تک بند کر دیئے۔
آتش بیانی نے جو فتوحات کرنی تھیں وہ ہو چکیں اب اس کے منفی اثرات کا دور ہے، کہا جاتا ہے کہ وہ عالم اسلام اور دنیا کے بڑے لیڈر ہیں مگر حقیقی صورتحال یہ ہے کہ بھٹو گرفتار ہوئے تو دنیا کے ہر دارالحکومت نے پاکستان سے احتجاج کیا۔ اسلامی ممالک اور مغربی ممالک نے بھٹو کی پھانسی روکنے کیلئے کیا کیا جتین نہ کئے۔ نواز شریف گرفتار ہوئے تو سعودی عرب ضمانت دے کر انہیں اپنے ملک لے گیا اور یوں جنرل مشرف کے مشکل دور سے انہیں بچا لیا۔
بے نظیر بھٹو کے لئے بھی دنیا کے ہر ملک سے آواز اٹھتی تھی آصف زرداری کیلئے بھی خلیجی ملک سے دباؤ پڑتا رہا ہے مگر عمران خان کی حمایت میں ایسی سفارتی سرگرمی نہ کسی اسلامی ملک نے دکھائی ہے نہ کسی مغربی ملک نے۔ اگر ان کے حق میں کوئی آوازیں آ بھی رہی ہیں تو وہ ان کی دوستی اور محبت سے زیادہ انسانی حقوق کی بحالی کی ہیں گویا بین الاقوامی طور پر عمران خان کیلئے کسی ایک بھی ملک سے ان کی ذاتی ہمدردی میں آواز نہیں آئی۔ تحریک انصاف اور عمران خان کو اپنی اس بین الاقوامی تنہائی پر ضرور غور کرنا چاہیے وگرنہ تو مشرف کی اقتدار سے علیحدگی کے بعد ان کی مدد کیلئےبھی سعودی عرب، دوبئی اور امریکہ آ گئے تھے۔
پاکستان کو بین الاقوامی طور پر رسوا کرنے اور تنہا کرنے میں کوئی خاص کامیابی نہیں ملی۔ فوج سے براہ راست مذاکرات میں بھی کامیابی نہیں ملی۔ صرف ایک ہتھیار ایسا ہے جو تحریک انصاف کے پاس سب سے طاقتور اور مضبوط ہے ،وہ ہے پاپولیریٹی۔ لیکن اگر غلط توقعات کا یہ سلسلہ جاری رہا اور امید پر امید ٹوٹتی رہی تو اِسے بھی نقصان پہنچے گا ،واحد راستہ سیاسی جدوجہد، سیاسی اتحاد اور پھر سیاسی جماعتوں سے مذاکرات ہے، اخلاقی برتری کو عملی فتح میں بدلنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔