کراچی میں اغوا کے بعد قتل کیے گئے مصطفیٰ عامر کی لاش ملنے کے بعد حب کے تھانے میں درج کیے گئے مقدمے کی تفیصلات کے مطابق 11 جنوری کو مقتول مصطفیٰ عامر کی لاش جلی ہوئی کار کی ڈگی سے برآمد ہوئی تھی بلوجستان کے تھانے میں واقعے کا مقدمہ 12 جنوری کو درج کیا گیا تھا جس میں قتل سمیت دیگر دفعات شامل ہیں۔پولیس حکام کے مطابق پوسٹ مارٹم رپورٹ میں لاش کو ناقابل شناخت بتایا گیا تھا تفتیشی افسران کے مطابق حب پولیس نے کراچی پولیس کو لاش کے حوالے سے اطلاع دی تھی حب پولیس نے ڈی این اے نمونے لینے کے بعد لاش ایدھی کے حوالے کی تھی یاد رہے کہ مقتول مصطفی عامر 6 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے سے لاپتہ ہوا تھا۔ 15 فروری کو تفتیشی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑے کی وجہ ایک لڑکی تھی جو 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی تھی لڑکی سے انٹرپول کے ذریعے رابطے کی کوشش کی جارہی ہے۔درخشاں تھانے میں درج مقدمے میں ابتدائی طور پر لاپتہ ہونے کی دفعہ شامل کی گئی تھی مصطفیٰ کی والدہ کو غیر ملکی نمبر سے تاوان کی کال موصول ہونے کے بعد مقدمے میں اغوا برائے تاوان کی دفعات شامل کی گئیں تفتیشی حکام نے بتایا کہ ملزم ارمغان اور مقتول مصطفیٰ دونوں دوست تھے لڑکی پر مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑا نیو ایئر نائٹ پر شروع ہوا تھا اس سلسلے میں انسپکٹر جنرل آف پولیس سندھ غلام نبی میمن کا کہنا ہے کہ مصطفیٰ عامر کو پہلے بھی اینٹی نارکوٹکس فورس نے منشیات کے مقدمے میں گرفتار کرکے چارج شیٹ دائر کی تھی ابتدائی طور پر پولیس کو شبہ تھا کہ اسے قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے ساتھ لے گئے ہوں گے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ وہ ان کی تحویل میں نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈیفنس میں اغوا کے بعد دوست کے ہاتھوں قتل ہونے والے نوجوان مصطفیٰ عامر نے مقامی سم استعمال نہیں کی اس لیے تکنیکی طور پر وہ پولیس کے لیے لاپتا رہا۔آئی جی سندھ کے مطابق مصطفٰی عامر اغوا اور قتل کیس کی تحقیقات کے دوران غیر پیشہ ورانہ طرز عمل پر درخشاں تھانے کے ایس ایچ او سمیت 3 جونیئر پولیس افسران کو معطل کر دیا گیا اور ان کے عہدوں میں تنزلی کر دی گئی ہے۔