امریکہ نے ڈی پورٹ بھارتیوں کو 40 گھنٹے ہتھکڑیاں بیڑیاں لگا کر فوجی طیارے میں بٹھایا.

امریکا میں غیر قانونی طور پر مقیم 100 سے زائد بھارتی شہریوں کو ملک بدر کیا گیا جن میں سے کچھ بھارتی شہریوں نے وطن پہنچنے پر تہلکہ خیز انکشافات کیے ہیں۔بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکا سے ملک بدر ہونے والے بھارت پہنچنے والے شہریوں نے بتایا کہ انہیں فوجی جہاز کے ذریعے لایا گیا اور پورے راستے میں ان کے ہاتھ اور پاؤں بندھے رکھے گئے۔امریکہ سے ڈی پورٹ کئے گئے بھارتیوں کے ساتھ طیارے میں ظالمانہ سلوک نے بھارت میں طوفان برپا کردیا ہے۔ امریکی فوجی طیارہ 104 ڈی پورٹیز کو لے کر امرتسر ایئرپورٹ پہنچا، جن میں 19 خواتین اور 13 بچے شامل تھے۔ یہ کارروائی امریکہ میں غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف ڈونلڈ ٹرمپ کی سخت پالیسی کے تحت کی گئی۔بھارتی حکومت نے پہلے اس معاملے پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی لیکن پھر امریکی بارڈ پولیس نے بھارتیوں کو ڈی پورٹ کرنے کی ویڈیو جاری کردی جس سے تصدیق ہوگئی تاہم بدھ کو بھارتی حکومت نے ایک تصویر کی حقیقت جانچتے ہوئے اس دعوے کو غلط قرار دیا کہ بھارتی تارکین وطن کو ملک بدری کے دوران ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہنائی گئی تھیں۔ حکومت نے وضاحت کی کہ جو تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، وہ دراصل گوئٹے مالا کے شہریوں کی تھی بھارتیوں کی نہیں۔ تاہم اب یہ بات واضح ہوگئے ہے کہ بھارتی تارکین وطن کو ہتھکڑیاں لگا کر فوجی طیارے میں بٹھایا گیا۔بھارتی شہریوں نے ملک بدری کے بعد الزام لگایا کہ انہیں فوجی طیارے کے ذریعے واپس بھیجا گیا اور پورے سفر کے دوران ان کے ہاتھ اور پاؤں زنجیروں میں جکڑے رہے۔اس سے قبل سیکیورٹی حکام نے بتایا کہ انھوں نے آنے والے افراد کی فہرست چیک کی ہے اور اس میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہے جس پر امریکہ میں کوئی جرم ثابت ہوا ہو.بھارتی پنجاب کے شہر گرداس پور سے تعلق رکھنے والے نوجوان جسپال سنگھ نے بتایا کہ ان کے ہاتھ امرتسر میں طیارہ لینڈ کرنے کے بعد کھولے گئے۔بھارتی میڈیا کے مطابق جسپال سنگھ کا کہنا تھا وہ بھارت بھیجے جانے سے پہلے 11 روز سے امریکی حکام کی تحویل میں تھا امریکا بدر ہونے والے ایک اور بھارتی شہری ہروندر سنگھ نے بتایا کہ میکسیکو پہنچانے سے قبل انہیں قطر، پیرو، کولمبیا، پاناما اور نکارا گوا لے جایا گیا، میکسیکو میں ہمیں پہاڑوں پر بھی سفر کروایا گیا اور سمندر میں کشتی پر بھی بٹھایا گیا، ایک موقع پر ہماری کشتی ڈوبنے والی تھی تاہم ہم محفوظ رہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں