کیا تحریک انصاف کی قیادت نے خان کو اکیلا چھوڑ دیا .قیادت احتجاج کی راہ سے بھٹک گئی

پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں میں یہ تاثر جڑ پکڑنے لگا ہے کہ قیادت نے عمران خان کو اکیلا چھوڑ دیا ہے اور احتجاج کے اس راستے سے بھٹک گئے ہیں جس کا انہوں نے حکم دیا تھا۔جبکہ سینئر رہنماؤں اور سیاستدانوں کے درمیان لڑائی نے پارٹی کو عملی طور پر ’قیادت سے محروم‘ کردیا ہے، اور دھڑے بندی نے جڑ پکڑنا شروع کردی ہے۔

پارٹی کے اندرونی ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ انفرادی طور پر طاقتور افراد کی زیر سربراہی مختلف دھڑے مرکزی قیادت کی عدم موجودگی میں پارٹی کے اندر پیدا ہو چکے ہیں اور ایک دوسرے سے مسلسل متصادم ہیں۔

اگرچہ سوشل میڈیا پر ملک بھر میں پارٹی کے مختلف رہنماؤں کے درمیان اختلافات، جھگڑوں اور خراب تعلقات کے حوالے سے قیاس آرائیوں کی بھرمار ہے جس میں پارٹی کے پنجاب کے رہنما حماد اظہر اور علی امین گنڈا کے درمیان حال میں ہونے والا مبینہ جھگڑا بھی شامل ہے البتہ کچھ پارٹی رہنما اس کی وجہ اپنی کوتاہیوں کے بجائے حکومتی اقدامات کو قرار دیتے ہیں۔

تحریک انصاف کے کارکنوں اور رضاکاروں کی نظروں سے دیکھیں تو ان کے اقدامات سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے قیادت نے عمران خان کو اکیلا چھوڑ دیا ہے جس کی واضح مثال بیرسٹر گوہر علی خان کی جانب سے عمران خان کے طبی معائنے کے حوالے سے موقف کے درمیان پایا جانےوالا تضاد ہے جہاں 15 اکتوبر کو احتجاج کی کال واپس لینے پربیرسٹر گوہر علی خان کی وضاحتوں میں نظر آ تا ہے انہوں نے وزیر داخلہ کی اس یقین دھانی کو بیان کیا کہ حکومت عمران خان کا طبی معائینہ ان کے ذاتی معالج سے کرائے گی پارٹی کے وفادار کارکنوں کا ماننا ہے کہ حکومت بانی پی ٹی آئی کے ذاتی معالج کو اڈیالہ جیل میں داخل ہونے سے روک کر اپنے وعدے سے مکر گئی ہے۔

تاہم، بیرسٹر گوہر نے ایسا محسوس کرانے کی کوشش کی کہ پہلے سے ہی پمز کے ڈاکٹروں کے معائنے کا منصوبہ تھاپی ٹی آئی کے چیئرمین نے برملا کہا کہ سب ٹھیک ہے۔پارٹی کارکنوں کی اکثریت اپنی قیادت کی جانب سے دی جانے والی احتجاج کی کالوں کے طریقہ کار اور پھر انہیں منسوخ کرنے کے انداز سے ناراض نظر آتی ہے، خطرناک صورتحال یہ ہے کہ انفرادی طور پر طاقتور افراد کی زیر سربراہی مختلف دھڑے مرکزی قیادت کی عدم موجودگی میں پارٹی کے اندر پیدا ہو چکے ہیں اور ایک دوسرے سے مسلسل متصادم ہیں۔

جب خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے مشکلات کے باوجود مظاہرین کے ایک کارواں کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد کا رخ کیا تو پارٹی کے خیبر پختونخوا کے دھڑے کو اسی جذبے کا مظاہرہ نہ کرنے پر پنجاب میں موجود اپنے ساتھیوں پر تنقید کرتے دیکھا گیا۔

اسی طرح، حکومت کی جانب سے اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کی اجازت دینے سے ابتدائی انکار کے تناظر میں پنجاب کے دھڑے نے سب سے پہلے 15 اکتوبر کو شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر احتجاج کا اعلان کیا تھا۔تاہم منگل کو پارٹی بظاہر اپنے مطالبے سے پیچھے ہٹ گئی اور ڈاکٹر اور خاندان کے افراد سے ملاقاتیں کرانے میں ناکام رہی۔

اطلاعات ہیں کہ کارکنان اور نوجوان تنظیموں کی ایک بڑی تعداد پمز کے ڈاکٹروں سے عمران خان کا طبی معائنہ کرانے کے پارٹی کے فیصلے سے مطمئن نہیں ہے۔گوکہ یہ ظاہر کیا گیا حماد اظہر نے پارٹی کے تمام ٹکٹ ہولڈرز اور عہدیداروں کو 15 اکتوبر کو اسلام آباد پہنچنے کے لیے جارحانہ کال دی تھی تاہم پارٹی کارکنوں کے ساتھ پس پردہ ہونے والی گفتگو سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایسا کرنے پر مجبور ہو گئے تھے کیونکہ پی ٹی آئی کے نوجوان اور طلبہ سمیت تمام کارکن اور رہنما عمران خان کی بہن نورین نیازی کی کال پر اسلام آباد کی طرف مارچ کے لیے تیار ہو گئے تھے۔

ملتان اور ساہیوال میں پولیس کے کریک ڈاؤن کے بعد حماد اظہر کی جانب سے پنجاب بھر کے شہروں میں پہلے سے شیڈول احتجاجی مظاہروں کو منسوخ کرنے پر پارٹی کے متعدد کارکنان بھی مشتعل ہو گئے، اس دوران ارکان پارلیمنٹ سمیت 200 سے زائد کارکنوں کو گرفتار کرکے مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔جبکہ حماد اظہرنے مبینہ طور پر کے پی کے وزیر اعلیٰ کو ان کی گمشدگی پر تنقید کا نشانہ بنایا جس میں اسلام آباد میں احتجاج کرنے والے پارٹی کارکنوں کو عملی طور پر تنہا چھوڑ دیا گیا تھا، اس کے جواب میں علی امین گنڈا پور نے کہا کہ حماد اظہر واضح طور پر سیاسی جدوجہد کا حصہ نہیں ہیں۔

پارٹی میں یہ تاثر گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ اس وقت پارٹی کو چلانے والے سیاسی کمیٹی میں بیٹھے رہنما ’سمجھوتہ‘ کر بیٹھے ہیں، انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان سب کو اپنے کاروباروں اور خاندانوں کے حوالے سے دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں جس نے انہیں حکومتی دباؤ کی مخالفت اور دارالحکومت میں مارچ کرنے جیسے سخت فیصلے کرنے کے حوالے سے بالکل بے بس کردیا ہے۔ پنجاب میں پارٹی کے اندر اب بہت سے گروپ کام کر رہے ہیں، حماد اظہر گروپ، میاں اسلم گروپ، شیخ امتیاز اور کرنل (ریٹائرڈ) اعجاز منہاس کے اپنے اپنے دھڑے ہیں، جبکہ عون بپی اور قریشی ہیں، جنوبی پنجاب میں قبائلی گروہ اور شمالی پنجاب میں طاہر صادق اور زلفی بخاری کے گروہ وغیرہ بھی ہیں۔

کیا تحریک انصاف کی قیادت نے خان کو اکیلا چھوڑ دیا .قیادت احتجاج کی راہ سے بھٹک گئی“ ایک تبصرہ

  1. بلکل ایسا ہی ہےپی ٹی آئی جس طرح سوشل میڈیا کےدباؤ پر اپنےفیصلےلیتی ہےاورجتنی اس وقت قیادت کو تنقید کا سامنا ہےاور پارٹی میں گروپ بندی ہے اس پریہ تحریر حالات کی مکمل عکاسی کرتی ہے

اپنا تبصرہ لکھیں