حماس اور امریکا غزہ جنگ بندی معاہدے کے مسودے پر متفق

فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے امریکی خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کی جانب سے پیش کردہ جنگ بندی کی نئی تجویز کو مشروط طور پر قبول کر لیا ہے، جس سے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں جاری خونریز جنگ کے خاتمے کی امید پیدا ہو گئی ہے۔امریکی نمائندے وٹکاف کی جانب سے پیش کردہ تجویز کے مطابق حماس کے جنگجو دو مراحل میں دس یرغمالیوں کو رہا کریں گے اور جنگ بندی کا دورانیہ 70 روز کا ہوگا۔بین الاقوامی میڈیاذرائع کے مطابق یہ منصوبہ دو مراحل میں دس زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی، 70 دن کی جنگ بندی اور اسرائیلی فوج کا غزہ کے کچھ حصوں سے انخلاء شامل ہے۔ اس منصوبے میں اسرائیل کی جانب سے سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کی رہائی بھی شامل ہے، جن میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو طویل مدتی سزائیں کاٹ رہے ہیں۔جبکہ امریکی صدر ٹرمپ جنگ بندی معاہدے اور غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلا کی ضمانت دیں گے۔ذرائع کے مطابق یہ تجویز گزشتہ چند دنوں میں ثالثوں کی جانب سے پیش کی گئی۔ امریکہ، مصر اور قطر جنگ بندی مذاکرات میں اہم ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔اسرائیلی حکومت کی جانب سے اس تجویز پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ دوسری جانب غیر ملکی خبررساں ایجنسی کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے نئی جنگ بندی تجاویز مسترد کر دی ہیں۔ حماس کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل مکمل طور پر غزہ سے نکل جائے تو وہ تمام یرغمالیوں کو رہا کرنے اور مستقل جنگ بندی کے لیے تیار ہےجبکہ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے بارہا کہا ہے کہ وہ صرف عارضی سیزفائر پر آمادہ ہیں وہ بھی یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے۔مجوزہ معاہدے میں جنگ بندی کے پہلے روز سے غیر مشروط انسانی امداد کی فراہمی بھی شامل ہے۔اسرائیل نے گزشتہ ہفتے محاصرہ جزوی طور پر نرم کیا ہے اور امدادی سامان غزہ پہنچنا شروع ہو گیا ہے، تاہم انسانی حقوق کی تنظیمیں امداد کی رفتار بڑھانے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

Hamas and US agree on draft Gaza ceasefire agreement

اپنا تبصرہ لکھیں