لاہور کے عبدالاحد نے اپنی والدہ کا دوبارہ نکاح کروا کر انھیں وہ زندگی جینے کے لیے رخصت کیا جو وہ 18 سال سے جی نہیں پائی تھیں احد کی اماں مدیحہ کاظمی نے پہلے خاوند سے علیحدگی کے بعد وہی ذندگی گزاری تھی جس کا تقاضہ یہ معاشرہ کسی بھی سنگل مدر سے کرتا ہے۔ یعنی بچوں کی خاطر اپنی ہر خواہش دبا کر اُن کے مستقبل کے لیے محنت کی جائے۔24 سال کے احد اور ان کی بہن بیٹی طوبیٰ نے یہ فیصلہ کہ اب والدہ کی شادی کرادینا چاہیے .مدیحہ کی بیٹی طوبیٰ ایک پرائیویٹ سکول میں کام کرتی تھیں جہاں ایک کولیگ نے ایک رشتے دار کی شادی کے سلسلے میں طوبیٰ کی والدہ کو بہترین انتخاب سمجھا۔ ان کا خیال تھا کہ بچوں کی خاطر اپنی ہر خواہش دبا کر اُن کے مستقبل کے لیے محنت کی جائے۔مدیحہ کو بھی لگتا تھا کہ ایک ماں ہونے کے ناطے ان کے پاس اپنے لیے سوچنے کی گنجائش نہیں ہے۔ انھیں ڈر تھا کہ دوبارہ شادی کے بعد ان کے بچوں کے لیے وہ قبولیت نہیں ہو گی۔ان کا کہنا ہے کہ ان سے شادی کے لیے کئی رشتے آتے تھے لیکن وہ اس بارے میں نہیں سوچتی تھیں۔پھر ان کے بچوں نے ان کی اس سوچ کو بدلا۔عبدالاحد بتاتے ہیں کہ بہن بھائیوں نے مل کر اماں کی ہمت بندھائی اور انھیں یقین دلایا کہ وہ اپنی زندگی پوری طرح جینے کا حق رکھتی ہیں۔بچوں نے کسی بڑے کی طرح لڑکے سے ملاقات کی۔ انھوں نے پہلے اپنی اور والدہ کی تسلی کی اور پھر چند ماہ میں نکاح کے بعد ماں کو رخصت کیا۔عبدالاحد کا کہنا تھا کہ میں پہلی بار کسی کے نکاح میں گواہ بنا تھا، وہ بھی اپنی اماں کے نکاح میں بنا .احد کا کہناہے کہ گھر کی روٹین میں والدہ کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ گیزر چلانے سے لے کر کپڑے استری کرنے تک سب وہ کرتی تھیں۔ پھر احساس ہوا کہ بہت سے چھوٹے چھوٹے کام ہیں جو وہ کرتی تھیں لیکن اب خود کرنے ہیں۔