مصطفیٰ قتل کیس میں مزید تہلکہ خیز انکشافات سامنے آگئے

مصطفیٰ قتل کیس میں مزید انکشافات سامنے آئے ہیں.پولیس کے مطابق مصطفیٰ کو گاڑی سمیت جلانے کے واقعہ کے اگلے روز ارمغان بذریعہ طیارہ اسلام آباد اور وہاں سے اسکردو چلا گیا۔ بعد ازاں ملزم شیراز بھی کراچی سے پہلے لاہور پہنچا اور وہاں سے اسلام آباد اور پھر اسکردو پہنچ گیا . یہ دونوں اسکردو میں رہ کر کراچی کی خبریں لیتے رہے کہ آیا ان پر کوئی شک تو نہیں کیا جا رہا۔28 جنوری کو شیراز کراچی پہنچا اور ارمغان کو واپس آنے کے لیے کہا جس کے بعد 5 فروری کو ارمغان بھی واپس کراچی پہنچ گیا۔ادھر تفتیش میں انکشاف ہوا ہے کہ مصطفیٰ کیس کے مشتبہ افراد بدنام منشیات فروش ہیں جبکہ مرکزی ملزم ارمغان کے گھر سے بڑی تعداد میں گاڑیاں اور غیر قانونی اسلحہ برآمد ہوا جس کا کوئی ریکارڈ پیش نہیں کیا گیا۔ اس کے علاوہ نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا بھی کوئی سرکاری ریکارڈ موجود نہیں. اس سارے معاملے پر ساؤتھ انویسٹی گیشن پولیس اور اینٹی وائلنٹ کرائم سیل کی کارکردگی سوالیہ نشان بنی رہی۔پولیس پر کیس کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے الزامات بھی لگائے جا رہے ہیں جبکہ ارمغان کے مالی گھپلوں کے خلاف اب تک کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ڈیفنس میں ملزم کے بنگلے پر چھاپے اور اس کی گرفتاری کے بعد بھی پولیس ملزم سے کچھ اگلوا نہیں سکی بعد ازاں وفاقی حساس ادارے اور سی پی ایل سی نے ارمغان کے دونوں ملازمین کی نشاندہی پر پہلے شیراز کے بھائی کو حراست میں لیا اور شیراز کے بھائی کی نشاہدہی پر شیراز کو گلستان جوہر سے حراست میں لیا گیا۔ایڈیشنل آئی جی کراچی جاوید عالم اوڈھو نےفرائض میں غفلت برتنے پر ایس ایچ او درخشاں اور انویسٹی گیشن آفیسر درخشاں سمیت 3 افسران کو معطل کردیا ہے۔ملزم شیراز نے دوران تفتیش واقعے کی تفصیلات بتائیں شیراز نے بتایا کہ 6 جنوری کی شب مصطفیٰ اور ارمغان بات کر رہے تھے کہ ارمغان طیش میں آگیا اور ایک راڈ سے مصطفیٰ کو مارا .راڈ لگنے سے مصطفیٰ زخمی ہوگیا۔ارمغان نے پاس پڑی ہوئی رائفل اٹھائی اور مصطفیٰ پر فائر کردیے اس کے بعد ارمغان اور شیراز نے ٹیپ اٹھا کر مصطفیٰ کے ہاتھ، پیر اور منہ پر ٹیپ لگائی اور مصطفیٰ کو اسی کی کار کی ڈگی میں ڈال دیا مصطفیٰ اس وقت تک سانسیں لے رہا تھا۔ارمغان اور شیراز نے مصطفیٰ کی کار بنگلے سے نکالی کار میں بیٹھنے سے پہلے ارمغان نے اپنے گھر کے جنریٹر سے پیٹرول ایک کین میں بھرا اور کار کی عقبی سیٹ پر رکھ دیا ملزمان ماڑی پور سے ہوتے ہوئے حب پہنچے اور حب سے آرسی ڈی ہائی وے سے ہوتے ہوئے جب یہ لوگ حب پہنچے تو انھیں سامنے روڈ کے ساتھ تھانہ نظر آیا اور پولیس والے روڈ پر کھڑے نظر آئے تو ارمغان نے کار واپس لے لی اور کچھ آگے جاکر کار کو روڈ سے نیچے اتار لیا۔ملزم کے مطابق مصطفیٰ کار کی ڈگی میں اس وقت زندہ تھا . ارمغان اور شیراز کو خوف تھا کہ کار سے ہمارے فنگر پرنٹ وغیرہ نہ مل جائیں اس لیے انہوں نے کار کا بونٹ کھول کر انجن پر اور باہر ٹائروں پر اپنے پاس موجود کین سے پیٹرول ڈالا اور کار کو آگ لگا دی۔کار کو آگ لگا کر ملزمان پیدل واپس کراچی کی طرف چل پڑےرات کو اس روڈ پر کوئی ٹریفک نہیں تھا۔ دونوں تین گھنٹے تک پیدل چلتے رہے ان کو پیٹرول پمپ پر ایک ہوٹل نظر آیا دونوں نے ہوٹل سے کھانا کھایا جہاں ہوٹل والوں نے ان کو بتایا کہ صبح 8 بجے ایک بس کراچی جاتی ہے۔یہ دونوں ہوٹل کے ساتھ بنی ہوئی مسجد میں سوگئے صبح بس نہیں آئی تو ان لوگوں نے ایک سوزوکی والے کو دو ہزار روپے دیے سوزوکی نے ان کو فور کے چورنگی پر اتاراپھر ملزمان رکشہ اور آن لائن ٹیکسی سروس کے ذریعے گھر پہنچے۔

More alarming revelations have come out in the Mustafa murder case

اپنا تبصرہ لکھیں