قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا حکومت کر رہے ہیں، ٹیکس وصول کر رہے ہیں، جدید اسلحے سے لیس گاؤں گاؤں پھر رہے ہیں، سڑکوں پر پہرے دے رہے ہیں، بلوچستان میں ایک ہی دن میں چار پانچ مقامات پر ریاستی اداروں پر، افواج پر حملے ہوئے، یہ سب چیزیں وہ ہیں جن پر ایوان غور نہیں کرے گا تو اور کون غور کرے گا۔
فضل الرحمان کا کہنا تھا ہم اب بھی ایسے معاملات کو سنجیدہ نہیں لے رہے، دونوں طرف صورتحال جذباتی ہو جاتی ہے، ایک فریق اس حد تک چلا جاتا ہے کہ وہ پھر علیحدگی کی بات کرتا ہے، دوسری طرف ہم طاقت سے نمٹنے اور ریاست کے تحفظ کیلئے آخری حد تک جانے کو تیار ہیں، اس قسم کے بیانات صورتحال کو اور جذباتی بناتے ہیں، دونوں جانب سے انتہا پر جانا ملک کی سلامتی کیلئے سوالیہ نشان بن گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا آج سیاسی لوگوں کی اہمیت ختم کی جا رہی ہے، سینئر سیاسی قائدین کو سائیڈ لائن کیا جا رہا ہے، معاملات اس قدر الجھ جاتے ہیں کہ اس گتھی کو سلجھانا مشکل ہو جاتا ہے لیکن ان سارے معاملات کو سیاسی لوگ ہی ختم کر سکتے ہیں، سیاستدانوں کو بااختیار بنائیں۔
سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا نوجوان جذباتی ہوتے ہیں، معاملہ فہم نہیں ہوتے جس سے معاملات اور الجھ جاتے ہیں، ہر چیز کے لیے امرت دھارا بن جانا خواہش ہو سکتی ہے مسئلے کا حل نہیں، ہم پراکسی جنگ لڑ رہے ہیں، یہ ہمارے مفاد کی جنگ نہیں ہے، اس وقت خطہ پاکستان اس پراکسی وار کا میدان جنگ بنا ہوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی قائدین کو ملک کیلئے غیر ضروری سمجھنا حماقت ہے، سندھ میں ڈاکووں کا راج ہے، ہمارے ہاں اسٹیٹ کو باقاعدہ چیلنج کیا جا رہا ہے، اس ساری صورتحال میں ہمارا کیا کردار ہو سکتا ہے، جذباتی لوگوں کو آگے لانے سے ریاست کا نقصان ہوتا ہے، سیاست کے معاملات سیاستدانوں کے حوالے کیے جائیں ورنہ مسئلے حل نہیں ہوں گے، اس ساری صورت حال میں ہمیں پوری ذمہ داری سے قدم اٹھانا چاہیے، اپوزیشن میں ضرور ہیں لیکن وطن کو ضرورت پڑی تو ہر طرح کی قربانی کے لیے تیار ہیں۔
ان کا کہنا تھا ہم لوگوں کو روزگار نہیں دے پا رہے، ایک طرف بے روزگاری ہے تو دوسری طرف محکموں کو ختم کیا جا رہا ہے، پی ڈبلیو ڈی کو ختم کیا جا رہا ہے، یوٹیلیٹی اسٹورز کو بند کیاجا رہا ہے، معاملات کو خراب نہ کیجیے، ملک میں بے روزگاری بڑھ چکی ہے اور مہنگائی کا طوفان ہے، آج پارلیمنٹ اور ممبران کا پالیسیوں میں کوئی کردار نہیں، پالیمان کی طرف سے واضح ہدایات آنی چاہئیں۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا مسنگ پرسنز ایک اہم اور انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے، ان کے پیارے سالوں سے لاپتہ ہیں، جو بھی مسنگ ہے حکومت کی ذمہ داری ہے ان کے خاندان کو بتائیں کہ ان کا بچہ کدھر ہے، اختر مینگل نے جس احساس کے تحت استعفی دیا وہ احساس یہاں بہت ساری پارٹیوں کا ہے، اقتدار میں لائےگئے لوگوں کا اس کے علاوہ کوئی کام نہیں کہ جب ان کے آقا چاہیں یہ ان کیلئے قانون سازی کریں۔
ممبر قومی اسمبلی نے کہا کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں حکومت کی رٹ ختم ہو چکی ہے، راکٹ لانچرز اور ہر طرح کے جدید اسلحے سے مسلح جتھے بھتے لے رہے ہیں، بلوچستان اور کے پی میں صورتحال کو واپس لایا جا سکتا ہے لیکن طاقت کے استعمال کی باتوں سے حالات بگڑتے ہیں، پارلیمنٹ اس صورتحال میں آگے بڑھے او اپنا کردار ادا کرے، جب ریاست ناکام ہو جاتی ہے تو وہاں ہم جاتے ہیں اور حالات کنٹرول ہوجاتے ہیں، میں الیکشن سے پہلے افغانستان گیا جہاں سرحدی اور دیگر تمام امور پر کامیاب مذاکرات کیے۔