نیویارک کی ایک اپیل کورٹ نے امریکی صدر پر عائد 50 کروڑ ڈالر جرمانہ ختم کرنے کا فیصلہ سنا دیا ہے ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ جرمانہ گزشتہ برس ایک سول فراڈ کے مقدمے میں ادا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔غیر ملکی خبرایجنسی کے مطابق نیویارک کی اپیل کورٹ کے 5 ججوں پر مشتمل بینچ نے 11 ماہ تک غور کے بعد اپیل پر فیصلہ سنادیا۔عدالت نے امریکی صدر پرعائد 500 ملین ڈالر کے جرمانے کو منسوخ کرتے ہوئے قرار دیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ پر جرمانہ بہت زیادہ ہے۔نیویارک سپریم کورٹ کے اپیلیٹ ڈویژن کے ججز نے جمعرات کو جاری کردہ ایک طویل فیصلے میں کہا کہ اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ فراڈ کے ذمہ دار ہیں لیکن تقریبا 50 کروڑ ڈالر کا جرمانہ حد سے زیادہ ہے۔عدالت نے ٹرمپ اور ان کے بیٹوں پر 2 سال کی کاروباری پابندیاں بھی معطل کر دیں جبکہ ٹرمپ اور ٹرمپ آرگنائزیشن پر بینکوں سے قرضے لینے کی 3 سال کی پابندی بھی معطل کر دی گئی۔واضح رہے کہ جج آرتھر اینگورن نے امریکی صدر کو یہ رقم ٹرمپ آرگنائزیشن کی جائیدادوں کی قیمت کو بڑے پیمانے پر بڑھا چڑھا کر پیش کر کے بہتر قرضے حاصل کرنے کی بنیاد پر ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔فراڈ کیس میں جج آرتھر اینگورن نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو 35 کروڑ ڈالر ادا کرنے کا حکم دیا تھا لیکن سود کے باعث یہ رقم بڑھ کر 50 کروڑ ڈالر سے زیادہ ہو گئی تھی۔اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹروتھ سوشل پر ٹرمپ نے اس فیصلے کو مکمل فتح قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ میں اس بات کی بہت قدر کرتا ہوں کہ عدالت نے اتنی ہمت دکھائی غیر قانونی اور شرمناک فیصلے کو ختم کیا جو پورے نیویارک میں کاروبار کو نقصان پہنچا رہا تھا، یہ سیاسی جادو ٹونا تھا کاروباری معنوں میں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔
