19 جنوری 1986 میں دو بھائیوں باسط اور امجد فاروق علوی نے لاہور(آبائی شہر شکر گڑھ)، پاکستان میں “برین اے” کے نام سے پہلا کمپیوٹر وائرس بنایا جو ایم ایس ڈوس آپریٹنگ سسٹم پر حملہ کرتا تھا۔ ان دونوں بھائیوں کی عمریں بالترتیب 17 اور 24 سال تھیں۔ انہوں نے ایک کمپیوٹر اسٹور چلایا جہاں وہ اپنی بنائی ہوئی سافٹ ویئر اور مقبول پروگرامز جیسے Lotus 1-2-3 اور WordStar کی غیر قانونی کاپیاں فروخت کرتے تھے۔ جب انہیں پتہ چلا کہ ان کے گاہک ان کی سافٹ ویئر کی غیر قانونی کاپیاں بنا رہے ہیں، تو انہوں نے ایک “دوستانہ” وائرس بنایا جو اس بات کی نگرانی کرتا کہ سافٹ ویئر کہاں تک پھیلا ہے اور ان غیر قانونی کاپیوں کو روکنے کا کام کرتا۔
انہوں نے اپنے وائرس کو ایک دل کے مانیٹرنگ پروگرام میں شامل کیا جو انہوں نے IBM-کمپیٹیبل کمپیوٹرز کے لیے بنایا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے اس وائرس کو 5.25 انچ کی فلاپی ڈسکس میں بھی شامل کیا جن میں وہ سافٹ ویئر غیر قانونی طور پر فروخت کرتے تھے۔ جب یہ فلاپی ڈسکس امریکی سیاحوں کے پاس پہنچیں اور انہوں نے ان کو اپنے کمپیوٹرز میں لوڈ کیا، تو وائرس فلاپی ڈسک کے بوٹ سیکٹر کو متاثر کر دیتا۔
وائرس بوٹ سیکٹر کے تین سیکٹرز پر قابض ہو کر عام بوٹ پروسس کی نقل کرتا تھا، جس کی وجہ سے فلاپی ڈسک ڈرائیو کی رفتار کم ہو جاتی تھی لیکن یہ ہارڈ ڈسک کو عام طور پر متاثر نہیں کرتا تھا۔ جب صارفین اس سافٹ ویئر کی کاپی بنا کر دوسروں کو دیتے، تو ان کی کمپیوٹرز میں ڈالی گئی فلاپی ڈسکس بھی متاثر ہو جاتی تھیں۔ چونکہ یہ وائرس جدید وائرسوں کی طرح زیادہ نقصان دہ نہیں تھا، اس لیے لوگ اکثر محسوس نہیں کرتے کہ ان کا کمپیوٹر متاثر ہو چکا ہے۔
سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ بھائیوں نے وائرس کے کوڈ میں اپنے نام، پتے، اور فون نمبر بھی شامل کیے تھے تاکہ صارفین ان سے وائرس سے بچاؤ کے لیے رابطہ کریں۔ جب بوٹ سیکٹر کو کامیابی سے پڑھا جاتا تو صارفین کو ایک پیغام دکھایا جاتا جس میں ان کے کمپیوٹر کے وائرس سے متاثر ہونے کی اطلاع دی جاتی تھی۔
یہ وائرس نسبتاً بے ضرر تھا، اور اس کا مقصد غیر قانونی طور پر سافٹ ویئر کاپی کرنے والوں کو ڈرانا تھا۔ باسط اور امجد فاروق علوی پر کبھی کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوئی، لیکن انہوں نے 1987 میں متاثرہ سافٹ ویئر کی فروخت بند کرنے کا دعویٰ کیا۔ بعد میں یہ دونوں بھائی پاکستان کی ٹیکنالوجی انڈسٹری کے رہنما بن گئے اور اب برین نیٹ چلاتے ہیں۔