حکومتی اتحاد بالآخر چھبیسویں ترمیم کو آئین کا حصہ بنانے میں کامیاب ہو گیا یہ ترمیم کیا ہیں عام عوام ابھی تک اس سلسلے میں کنفیوژن کا شکار ہیں .سادہ الفاظ میں سوائے سود کے خاتمے اور ماحولیاتی ترمیم کے سوا تمام عدالتی اصلاحات بیان کی جاتی ہیں جس میں بظاہر عدالتی اختیارات کو پارلیمنٹ کے حوالے کیا گیا ہے .ترمیم کے مطابق سپریم کورٹ سمیت اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تعیناتی سے متعلق آرٹیکل 175 اے میں تبدیلی کی گئی ہے جس کے مطابق سپریم جوڈیشل کمیشن میں چیف جسٹس کے علاوہ سپریم کورٹ کے چار سینیئر ججز سمیت چار اراکین پارلیمنٹ بھی ہوں گے، جن میں سے ایک سینٹر اور ایک رکن قومی اسمبلی کا نام وزیر اعظم جبکہ ایک سینیٹر اور ایک رکن قومی اسمبلی کا نام قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف دیں گے۔جبکہ ججز کی تقرری سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے 12 ارکان ہوں گے جن میں سے آٹھ کا تعلق قومی اسمبلی جبکہ چار کا تعلق سینیٹ سے ہو گا۔آٹھ اراکین قومی اسمبلی (ایم این ایز) اور چار سینیٹرز پر مشتمل (12 رکنی) پارلیمانی کمیٹی چیف جسٹس کے عہدے کے لیے تین ججوں کے نام فائنل کر کے وزیر اعظم کو بھجوائے گی۔ چیف جسٹس ریٹائرمنٹ تک یا تین سال تک چیف جسٹس رہ سکیں گے۔ آئینی بینچوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کی سطح پر اور صوبوں میں میکنزم واضح کیا جائے گا۔5۔ صوبوں کی اسمبلیاں مجموعی اراکین کے 51 فیصد کے ساتھ قرادار منظور کریں تو متعلقہ صوبے میں آئینی بینچ قائم کیا جا سکے گا۔آئینی بینچوں کی تشکیل کا اختیار چیف جسٹس کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن کے پاس ہو گا۔اسی طرح ججوں کی تعیناتی کے لیے جوڈیشل کمیشن چیف جسٹس سپریم کورٹ، سپریم کوٹ کے چار سینیئر ججوں، چار پارلیمنٹیرینز، وفاقی وزیر قانون اور اٹارنی جنرل آف پاکستان پر مشتمل ہو گا۔ صوبائی جوڈیشل کمیشن میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جائے گئی اور جوڈیشل کمیشن کے ذمہ داریوں میں ججوں کی کارکردگی کی تشخیص بھی شامل ہو گی۔ جوڈیشل کمیشن کو اختیار ہو گا کہ وہ رولز بنا کر ایک طریقہ کار وضع کرے۔جبکہ صوبوں کی اسمبلیاں مجموعی اراکین کے 51 فیصد کے ساتھ قرادار منظور کریں تو متعلقہ صوبے میں آئینی بینچ قائم کیا جا سکے گا۔ آئینی بینچوں کی تشکیل کا اختیار چیف جسٹس کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن کے پاس ہو گا۔ ججوں کی تعیناتی کے لیے جوڈیشل کمیشن چیف جسٹس سپریم کورٹ، سپریم کوٹ کے چار سینیئر ججوں، چار پارلیمنٹیرینز، وفاقی وزیر قانون اور اٹارنی جنرل آف پاکستان پر مشتمل ہو گا۔ترمیم کے مطابق صوبائی جوڈیشل کمیشن میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جائے گئی۔ جوڈیشل کمیشن کے ذمہ داریوں میں ججوں کی کارکردگی کی تشخیص بھی شامل ہو گی۔ جوڈیشل کمیشن کو اختیار ہو گا کہ وہ رولز بنا کر ایک طریقہ کار وضع کرے۔اسی طرح جوڈیشل کمیشن چیف جسٹس اور صوبائی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے ساتھ مل کر ججوں کی کارکردگی کا جائزہ لے سکے گا۔ جوڈیشل کمیشن ججوإ کی پیشہ وارانہ استعداد کے بارے میں اپنی رپورٹ دے گا۔بل میں جے یو آئی کے سینیٹر کی جانب سے تجویز کردہ ترمیم میں کہا گیا تھا کہ سود کو جنوری 2028 تک ملک سے مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا.حکمران اتحاد اسے پارلیمنٹ کی فتح جبکہ حزب اختلاف اسے عدالت کی آزادی کے لئے سیاہ باب قرار دے رہا ہے