چیف جسٹس نے نہیں پارلیمان نے ملک کی سمت کا تعین کرنا ہے: وزیر قانون

اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر کی تقریر کا جواب دیتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا پارلیمنٹ کا اختیار ہے کہ آئینی ڈھانچے میں رہتے ہوئے قانون سازی کرے۔

ان کا کہنا تھا اسد قیصر میرے محترم ہیں، اسپیکر کی کرسی پر براجمان رہے ہیں، مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ ڈرافٹ تو تب سامنے لایا جائے جب بل ایوان میں پیش کیا جائے، کابینہ میں معاملہ آتا ہے آس کے بعد کابینہ کی خصوصی کمیٹی اس کو جانچتی ہے، کابینہ اور خصوصی کمیٹی کے بعد پارلیمنٹ میں بل آتا ہے، ابھی یہ بل مسودہ بن کر کابینہ نہیں گیا تو اس کو ایوان میں کیسا لایا جا سکتا، ہم نے اتحادیوں سے بل پر مشاورت کی تھی، اپوزیشن کا کام حکومتی بل پر تنقید کر کے اس میں سے چیزیں نکلوانا ہے لیکن جب ہمارا کام پورا ہو گا تو ہی ہم آپ تک مسودہ پہنچائیں گے۔

ان کا کہنا تھا آئینی ترمیم کوئی نئی بات نہیں یہ چارٹر آف ڈیموکریسی کا حصہ ہے، ہم اپنی مخالفتوں اور ٹائمنگ کی وجہ سے اپنی داڑھیاں کھینچتے رہتے ہیں اور اپنی ساری طاقت جا کر جھولی میں ڈال کر آجاتے ہیں، خدارا مضبوط ہو کر کھڑے ہوں کہ 25 کروڑ عوام نے آپ کو اختیار دیا ہے، آپ نے ملک کی ڈائریکشن طے کرنی ہے اور بتانا ہے کہ ملک کیسے چلنا ہے، چیف جسٹس نے چینی کا ریٹ طے نہیں کرنا ہے، چیف جسٹس نے بجلی کے کھمبے لگانے کا حکم نہیں دینا، چیف جسٹس نے نہیں بتانا کہ کون سی سیاسی جماعت نے کیسے چلنا ہے، منشور اس ایوان میں بیٹھے لوگوں نے دینا ہے۔

اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا جب آئینی ترامیم کا معاملہ کمیٹی میں آیا تو میں نے وہاں آئینی عدالت کی تجویز پیش کی جسے فوری طور پر چیف جسٹس پاکستان کی مدت ملازمت سے جوڑ دیا گیا، آئینی عدالت میں ایک چیف جسٹس اور 7 سے 8 ججز کی تعیناتی کی بات سامنے آئی ہے، اس آئینی عدالت میں تمام اکائیوں کی نمائندگی ہو گی، اپنی کمزوریوں کی وجہ سے ہماری خواہش ہوتی ہے کہ ہمارے معاملات سپریم کورٹ جائیں اور وہیں پر حل ہوں کیونکہ ہم یہ معاملات اکٹھے بیٹھ کر حل نہیں کر سکتے، ہم نے اتنی نادانیاں کی ہیں کہ سارا اختیار دیوار کے اس پار دے دیا ہے، کچھ اس پار ہے اور کچھ اس سے آگے ہوگا، یہ کب واپس آئے گا جب آپ نے اپنا اختیار استعمال کرنا شروع کرنا ہے اور وہ اختیار قانون سازی کا اختیار ہے۔

وزیر قانون کا کہنا تھا ابھی تو ہم ضابطہ فوجداری کا ایک پیکج لا رہے ہیں جس میں گرفتاری سے لیکر ایف آئی آر کے اندارج، چالانوں کے داخلے، پراسیکیوشن کے کردار اور ضمانتوں اور مقدمات کے فیصلوں تک 90 مختلف ترامیم شامل ہیں، ٹرائل کی ٹائم لائن سے لیکر ایک سال تک جج کو فیصلہ کرنا ہوگا ورنہ اس جج کے خلاف تادیبی کارروائی ہوگی، یہ سب چیزیں اس کا حصہ ہیں اور میں چیلنج کرتا ہوں کہ اپوزیشن جس بار کونسل سے کہے گی وہاں یہ پیکج لیکر جائیں گے، اگر یہ پیکج مسترد ہوا تو میں جوابدہ ہوں گا۔

قبل ازیں اسد قیصر کا قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہنا تھا اگر وزیر کے پاس ڈرافٹ نہیں تو بتائیں کہ یہ نسخہ کیمیا کہاں سے آیا، یہ تو بنیادی انسانی حقوق کو بھی سلب کرنا چاہتے ہیں، خاص طور پر مولانا فضل الرحمان کی جرات اور بہادری کو سلام پیش کرتا ہوں۔

اسد قیصر کا کہنا تھا کیا اپوزیشن کوئی اس ملک کی دشمن ہے، ہم کہتے ہیں کہ آپ ترامیم لائیں پہلے یہاں ایوان میں ڈسکس تو کریں، اس طرح سے چوری چھپے رات کے اندھیرے میں قانون سازی پارلیمنٹ کے منہ پر دھبہ ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں