سارہ شریف کے والد کا بیٹی کو بلے اور دھاتی ڈنڈے سے قتل کرنے کا اعتراف

عرفان شریف نےعدالت میں اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے کرکٹ بیٹ کے علاوہ دھاتی پول سے بھی سارہ کو پیٹا جس کے دوران انھیں ٹیپ کی مدد سے باندھا گیا تھا۔لندن کے علاقے اولڈ بیلی میں قتل ہونے والی 10 سالہ سارہ شریف کے والد عرفان شریف نے اپنی بیٹی کی موت کی مکمل ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ وہ اس شام گھر پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ سارہ کمرے میں ان کی اہلیہ بینش کے ساتھ بیمار پڑی ہے انہیں ی یقین نہیں تھا کہ سارہ واقعی بیمار ہیں۔عرفان شریف نے اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اپنی بیوی بینش سے کہا کہ وہ ڈرامہ کر رہی ہےاور دھاتی پول اٹھایا اور سارہ کے پیٹ پر دو بار مارا. عرفان شریف نے اپنی 10 سالہ بیٹی کے ساتھ وحشیانہ سلوک کی تفصیل بتاتے ہوئے اعتراف کیا کہ اس نے سارہ کو کرکٹ بیٹ اور اسٹیل کے پائپ سے پیٹا، جس کے نتیجے میں 8 اگست 2023 کو اس کی موت واقع ہوگئی تھی۔ملزم نے اعتراف کیا کہ اس نے کئی ہفتوں تک سارہ کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا . عرفان شریف نے دعوی کیا کہ ان کا ارادہ صرف سارہ کو ڈسپلن کرنے کا تھا۔ انھوں نے عدالت میں کہا کہ وہ اسے قتل نہیں کرنا چاہتا تھا۔واضح رہے کہ سارہ شریف کی لاش گزشتہ سال 10 اگست کو برطانیہ میں ووکنگ کے علاقے میں ایک گھر سے ملی تھی، پاکستان فرار ہونے والے تینوں ملزمان پولیس کو مطلوب تھے۔تینوں ملزمان کو پاکستان میں ایک ماہ گزارنے کے بعد دبئی کی پرواز سے اترتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔استغاثہ کے مطابق پولیس جب موقع پر پہنچی تو اس وقت سارہ کی لاش کے آگے عرفان شریف کا لکھا ہوا ایک خط بھی موجود تھا جس میں انہوں نے قتل کا اعتراف کیا۔نوٹ میں لکھا تھا کہ میں عرفان شریف ہوں جس نے اپنی بیٹی کو مار مار کر قتل کیا. میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرا ارادہ اسے قتل کرنے کا نہیں تھا لیکن میں نے اسے کھو دیا۔ پراسیکیوٹر وکیل ایملن جونز نے عدالت کو بتایا تھا کہ خاندان کے گھر کے باہر سے خون آلود کرکٹ بیٹ، ایک دھاتی ڈنڈا، ایک بیلٹ اور رسی سمیت ایک پن ملی جس پر سارہ کا ڈی این اے پایا گیا۔اس سے قبل مقدمہ کی سماعت کے دوران 42 سالہ عرفان شریف، سارہ کی 30 سالہ سوتیلی والدہ بینش بتول اور عرفان کے 29 سالہ بھائی اور سارہ کے چچا فیصل ملک نے قتل کے الزام سے انکار کیا ہے۔جیسے جیسے عرفان شریف کے اعتراف بڑھتے گئے. جیوری میں شامل چند اراکین کے منھ کھلے رہ گئے۔

اپنا تبصرہ لکھیں