چارسدہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ حکومت نے اجلاس بلا کر ملک میں علما کو تقسیم کرنے کی سازش کی گئی ہم ان علما کو بھی اپنی صف کے لوگوں میں شمار کرتے ہیں دینی مدارس کے حقوق کی جنگ تمام مدارس اور علما کے لیے لڑ رہے ہیں۔سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ الیکشن سے قبل پی ڈی ایم کی حکومت میں تمام پارٹیوں نے بل پر اتفاق رائے کیا تھا اور اس کی پہلی خواندگی پر کوئی اختلاف رائے نہیں ہوا دوسری خواندگی میں اداروں نے مداخلت کرکے قانون سازی رکوادی 26 ویں آئینی ترمیم کے مرحلے کے دوران بل کی منظوری کے حوالے سے بات کی جس سے تمام اسٹیک ہولڈرز واقف تھے۔انہوں نے کہا کہ اب نیا شوشا چھوڑا گیا کہ یہ پہلے وزارت تعلیم کے ساتھ وابستہ تھے .ہم بتانا چاہتے ہیں کہ اس مسودے کے اندر تمام مدارس کو کسی بھی وفاق کے ساتھ الحاق کی مکمل آزادی دی گئی ہے چاہے وہ 1860 کے سوسائٹی ایکٹ کے تحت یا وزارت تعلیم کے ساتھ منسلک ہونا چاہیں ہم نے کوئی اعتراض نہیں کیا. ہر مدرسہ اس حوالے سے آزاد ہے۔مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ا کہ ہم ریاست سے تصادم نہیں بلکہ رجسٹریشن چاہتے ہیں. اس حوالے سے 2004 میں بھی قانون سازی ہوئی تھی، 2019 میں ایک نئے نظام کے لیے محض ایک معاہدہ کیا گیا۔مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز ہم حتمی اعلان کرنے کی طرف جارہے تھے لیکن صدر وفاق اور اتحاد تنظیمات مدارس دینیا کے سربراہ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی جانب سے 17 دسمبر کو اجلاس بلائے جانے کے بعد اس فیصلے کو روک دیا ہے.