تاریخ سے ایک ورق: فاطمہ جناح کی انتخابی مقبولیت ایوب خان نے انھیں نسوانیت اور ممتا سے عاری خاتون قرار دیدیا تھا

جب سال 1964 میں71 سالہ فاطمہ جناح قومی انتخابات میں پاکستان کے صدر ایوب خان کے خلاف متحدہ اپوزیشن کی امیدوار بن چکی تھیں اور زور شور سے اپنی انتخابی مہم چلا رہی تھیں۔ مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) ہو یا مغربی پاکستان، بظاہر پورا ملک ہی فاطمہ جناح کے لیے دیوانہ تھااس انتخابی مہم کی گہما گہمی سے متعلق 30 اکتوبر 1964 کو شائع کردہ اپنی ایک رپورٹ میں ٹائم میگزین ے لکھا کہ ڈھاکہ میں تقریباً ڈھائی لاکھ لوگ انھیں دیکھنے کو آئےتھے اس خبر میں مزید بتایا گیا کہ وہ بظاہر الگ تھلگ اور تقریباً مغرور لگتی ہیں لیکن اُن کی مسکراہٹ ایسی گرمی اور محبت پیدا کرتی ہے جس کے سامنے کوئی بھی بے بس ہو جاتا ہے۔ اُن کا انگریزی میں بیان سامعین کے لیے تقریباً ناقابل فہم ہوتا تھا لیکن وہ اُن کے ہر لفظ کو محبت سے سُنتے ہیں۔ اُن کے ہر بیان کے بعد ہونے والا ترجمہ نعروں اور تالیوں کی گونج میں دب جاتا ہے۔ نوابزادہ نصراللہ خان کے مطابق انھوں نے ایوب خان کے مارشل لا اور آمریت کی بھی بھرپور مخالفت کی۔ یہاں تک کہ اس قدر معمر ہونے کے باوجود وہ آمر حکمران کے خلاف انتخاب لڑنے کے لیے تیار ہو گئیں ایوب کو توقع نہیں تھی کہ اپوزیشن جماعتوں کا مجموعہ جو خفیہ کمیونسٹوں سے لے کر دائیں بازو کے سخت گیر مسلمانوں تک پھیلا ہوا تھاایک امیدوار پر متحد ہو جائے گا۔ لیکن وہ متحد ہو گئے۔ نوابزادہ نصراللہ اپوزیشن کی ان سرگرمیوں کا متحرک حصہ تھے حزب اختلاف کی پانچ جماعتوں نے کمبائنڈ اپوزیشن یا متحدہ حزب اختلاف کے نام سے سیاسی اتحاد قائم کیا۔ اس میٹنگ میں مسلم لیگ (کونسل) کے صدر خواجہ ناظم الدین، نظام اسلام پارٹی کے صدر چودھری محمد علی، نیشنل عوامی پارٹی کے صدر مولانا عبد الحمید بھاشانی اور میاں محمود علی قصوری، عوامی لیگ کی جانب سے میں اور شیخ مجیب الرحمٰن اور جماعت اسلامی سے چودھری رحمت الہٰی شریک ہوئے۔بعد میں مولانا ابو الاعلیٰ مودودی نے جماعت اسلامی کی نمائندگی کی وہ پہلے اجلاس کے وقت جیل میں تھے۔ فاطمہ جناح کی زور پکڑتی انتخابی مہم کو روکنے کے لیے اچانک اعلان کیا گیا کہ انتخابات 2 جنوری کو ہوں گے نہ کہ مارچ میں، جیسا کہ پہلے طے کیا گیا تھا یکم دسمبر 1964 کو الیکشن کمیشن نے اس ضمن میں ایک ہی دن میں تین نوٹیفیکیشن جاری کیے جن میں صدارتی امیدواروں کے نام اُن کے انتخابی نشان اور دو جنوری کو پولنگ ہونے کا اعلان کیا گیا۔ ایوب خان کا انتخابی نشان پھول تھا جبکہ فاطمہ جناح کا لالٹین کا نشان دیا گیا تھا۔ فاطمہ جناح کے ایوب کی سخت گیر حکمرانی کے خلاف اُن کے تیز و تند حملوں پر پاکستانی عوام کے ردعمل نے حکومت کو حیران اور پریشان کر دیا تھا۔ وہ غربت کو تنقید کا نشانہ بناتی ہیں۔ وہ بدعنوانی کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں خاص طور پر ایوب خان کے بڑے بیٹےگوہر ایوب کی تیز ترقی کے خلاف جنھوں نے اپنی فوجی کپتانی چھوڑ کر گندھارا انڈسٹریز میں بڑا عہدہ سنبھال لیا ہے جس نے جنرل موٹرز کے اسمبلی پلانٹ کو اس کے امریکی مالکان سے دس لاکھ ڈالر میں خریدا۔ سب سے بڑھ کر وہ ایوب پر آمر ہونے کا الزام لگاتی ہیں۔ مس جناح واضح طور پر ایوب خان کے اعصاب پر سوار تھیں۔ ایوب نے کہا، وہ ایک بوڑھی گوشہ نشین اور کمزور دماغ والی خاتون ہیں۔ اگر آپ نے انھیں ووٹ دیا، تو آپ انتشار کو دعوت دیں گے۔ ایوب خان نے اس انتخابی مہم کے دوران فاطمہ جناح کو نسوانیت اور ممتا سے عاری خاتون قرار دیا تھا۔ اُس دور کے سیکریٹری اطلاعات الطاف گوہر نے اپنی کتاب فوجی راج کے پہلے دس سال میں لکھا ہے کہ ایوب خان نے لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مس جناح کے غیر شادی شدہ ہونے کے حوالے سے اُن پر خلافِ فطرت زندگی بسر کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وہ بدخصال لوگوں میں گھری ہوئی ہیں۔ ایوب حکومت نے کسی خاتون کے ملک کے سربراہ ہونے کے خلاف فتوے بھی جاری کروائے اور اسی کے جواب میں کراچی میں خطاب کرتے ہوئے مولانا مودودی نے کہا تھا کہ مرد سے قوم کو فائدہ نہ پہنچ رہا ہو تو خاتون سربراہِ مملکت بن سکتی ہے۔ اسی دوران انتخابی مہم زوروں پر تھی جب مولانا بھاشانی اپنی پارٹی سمیت فاطمہ جناح کی حمایت سے دستبردار ہو گئے۔ بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے اس دور میں دعویٰ کیا تھا کہ مولانا بھاشانی کی غداری سے بہاریوں کے ووٹ محترمہ فاطمہ جناح کو نہ ملے۔ انھوں نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ مولانا بھاشانی نے ایوب خان سے چالیس لاکھ روپیہ لیا تھا۔ا نھو ں نے ایوب خان سے پیسے لے کر مادر ملت کی انتخابی مہم کو اپنے زیر اثر علاقوں میں ٹھنڈا کر دیا اور 2 جنوری 1965کو انھیں ووٹ بھی نہ ڈلوائے۔ فاطمہ جناح کے پولنگ ایجنٹ شیخ مجیب نے ڈھاکہ اور چٹاگانگ میں مادر ملت کو جتوا دیا تھا لیکن باقی علاقوں میں بھاشانی نے مادر ملت کو ہروا دیا۔ مادر ملت مشرقی پاکستان سے اکثریت حاصل کر لیتیں اور الیکشن جیت جاتیں تو شاید پاکستان نہ ٹوٹتا۔ ایوب خان نے الیکشن جیت کر پاکستان کو ہروا دیا۔ فاطمہ جناح نے انتخابات کے نتائج آنے کے بعد کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ انتخابات دھاندلی شدہ تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور سندھ کے اہم روحانی گدی کے سربراہ مخدوم سید زماں طالب المولیٰ نے بھی کُھل کر ایوب خان کی حمایت میں مہم چلائی۔ سندھ کے تالپور گھرانے کے علی احمد تالپور، رسول بخش تالپور کُھل کر مادر ملت کے ساتھ کھڑے رہے۔ پیر پگاڑا، محمد خان جونیجو، پیر آف رانی پور، غلام نبی میمن وغیرہ نے بھی ایوب کا ساتھ دیا۔ جنوبی پنجاب میں ملتان ڈویژن میں قریشی، گیلانی، کھگے، بوسن، کانجو، خاکوانی، ڈاہا، بودلے، کھچی، گردیزی سب ہی ایوب خان کے ساتھ تھے تاہم میر بلخ شیر مزاری، پیر ظہور حسین قریشی اور رمضان دریشک نے مادر ملت کا ساتھ دیا۔ ایوب خان کی کامیابی میں نواب کالاباغ کی چالبازیوں اور جوڑتوڑ نے بھی اہم کردار ادا کیا۔راولپنڈی میں راجا ظفر الحق نے ایوب خان کا ساتھ دیا گجرات کے چودھری ظہور الٰہی تو ایوب خان کے دست راست تھے۔ سرگودھا میں ٹوانے، پراچے، نون، لک، میکن اور دیگر اہم الیکٹ ایبلز ایوب خان کے ساتھ تھے۔ گوجرانوالہ میں غلام دستیگر خان ایوب خان کے زبردست حامی تھے شیخوپورہ، فیصل آباد اور پنجاب کے دیگر اہم شہروں کے الیکٹ ایبلز ایوب خان کے ساتھ تھے۔سرحد میں بھی یہی کھیل کھیلا گیا۔ کئی بڑے علما جیسے صاحبزادہ فیض الحسن، علامہ احمد سعید کاظمی نے مادر ملت کے خلاف فتوے بھی صادر کیے۔ خطۂ پوٹھوہار کے تمام بڑے گھرانے اور سیاسی لوگ ایوب خان کے ساتھ تھے‏بریگیڈیئر سلطان اور ملک اکرم ایوب خان کے ساتھ تھے سوائے چودھری امیر اور ملک نواب خان کے جن کو الیکشن کے دو دن بعد قتل کر دیا گیا۔

اپنا تبصرہ لکھیں