لاس اینجلس میں آگ بجھانے پر امریکی حکام مایوس .دنیا کا کوئی بھی پانی کا نظام قابو پانے کی صلاحیت نہیں رکھتا

امریکی حکام نے تسلیم کرلیا کہ دنیا کا کوئی بھی پانی کا نظام لاس اینجلس کی آگ پر قابو پانے کی صلاحیت نہیں رکھتا.پولیس تحقیقات کر رہی ہے کہ کہیں آگ جان بوجھ کر تو نہیں لگائی گئی۔فائر فائٹرز کی کوششوں کے باوجود آگ تاحال بے قابو ہے۔ موسمی حالات اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے سبب خیال کیا جا رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں تیز ہوا شعلوں کو مزید بھڑکائے گی۔بارہ ہزار مکان اور عمارتیں راکھ کا ڈھیر بن گئیں چار لاکھ سے زائد افراد نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔ حکام کے مطابق نقصان کا ابتدائی تخمینہ ایک سو پچاس ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہلاک افراد کی تعداد گیارہ ہوگئی ہے جو بڑھنے کا خدشہ ہے،اب تک گیارہ ہزار سات سو پچاس ہیکٹرسےزائد اراضی پرجنگل جل کرخاکسترہوچکا ہے ترجمان پینٹاگون کے مطابق پانچ سو اہلکار اور دس نیوی ہیلی کاپٹر آگ بجھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں.لاس اینجلس شہر اور کاؤنٹی کے حکام نے آگ کو ایک عظیم طوفان قرار دیا ہے جس میں 100 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے آنے والی طوفانی ہواؤں نے انہیں ایسے اہم طیارے تعینات کرنے سے روک دیا جو خشک سالی سے متاثرہ علاقوں میں پانی اور آگ کو روکنے کے لیے استعمال کیے جاسکتے تھے۔ آگ بدھ کی سہ پہر لاس اینجلس کے شمال میں پہاڑی ایکٹن کے علاقے میں لگی اور تقریباً 350 ایکڑ پر پھیل چکی ہے.عالمی ماہرین اور اداروں کے مطابق اس آگ سے نقصانات کا تخمینہ 150 ارب ڈالر سے بڑھنے کا خدشہ ہے، تاہم ابھی اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ نقصانات کہاں تک پہنچیں گے۔

اپنا تبصرہ لکھیں