کراچی میں اغوا کے بعد دوست کے ہاتھوں قتل کیے جانے والے نوجوان مصطفیٰ عامر کے قتل کیس میں عدالت نے ملزم ارمغان کے پولیس ریمانڈ کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا . ملزم ارمغان کو سندھ ہائیکورٹ میں پیش کردیا گیا ہے، مرکزی ملزم ارمغان کو ہتھکڑی لگا کر اور چہرہ ڈھانپ کر سخت سیکیورٹی میں عدالت پہنچایا گیا.دوران سماعت رجسٹرار انسداد دہشتگردی عدالت نے کیس کا ریکارڈ عدالت میں پیش کیا اور موجودہ تفتیشی افسر نے بتایا کہ ٹرائل کورٹ میں پہلے پولیس ریمانڈ دیا گیا تھا اور شام 7 بجے جیل کسٹڈی کی ہے۔دوران سماعت عدالت نے کہا کہ پورا آرڈر ٹائپ ہے وائٹو لگا کر جیل کسٹڈی کیا ہے۔ جسٹس ظفر احمد راجپوت نے ریمارکس دئے کہ ہاتھ سے وائٹو لگا کر جیل کسٹڈی کیا گیا ہےپولیس ابھی تک لکھا ہوا ہے۔ پراسکیوٹر جنرل نے کہا کہ ملزم کا باپ جج صاحب کے کمرے میں موجود تھا میں حلف اٹھا کر کہتا ہوں۔ملزم ارمغان عدالت میں مصطفیٰ عامر کے قتل سے مکر گیا۔ جبکہ ملزم شریک ملزم شیراز کو بھی پہچاننے سے انکار کردیا۔ ارمغان نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ میں نے مصطفیٰ کو نہیں مارا مجھے پھنسایا جارہا ہے۔سندھ ہائیکورٹ میں انسداد دہشتگردی عدالت کی جانب سے ملزم کے جسمانی ریمانڈ نہ دیے جانے کے خلاف محکمہ پراسیکیوشن کی درخواست پر سماعت ہوئی۔اس کے بعد ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے ایف آئی آر پڑھ کر سنائی۔ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے بتایا کہ چھ جنوری کو مصطفیٰ عامر کو اغوا کیا گیا اور مقدمہ نامعلوم ملزمان کے خلاف درج کیا گیا، درخشاں تھانے کے پولیس افسر نے مصطفیٰ کی والدہ کا بیان ریکارڈ کیا، 13جنوری کو تاوان کی کال کے بعد مقدمہ اے وی سی سی کو منتقل ہوا۔اس دوران عدالت نے استفسار کیا کہ ملزم پہلے کب مقدمات میں مفرور تھا جس پر ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے بتایا کہ ملزم کا سی آر او پیش کیا گیا ہے پانچ مقدمات ملزم کے خلاف درج ہیں، ملزم بوٹ بیسن تھانے کے بھتے کے کیس میں مفرور ہے۔عدالت نے استفسار کیا کہ پولیس کسٹڈی کی درخواست کس بنیاد پر مسترد کی گئی کیا تشدد کیا گیا جس پر ملزم ارمغان نے کہا کہ مجھ پر تشدد کیا گیا۔عدالت نے کہا کہ دکھائیں نشانات کہاں ہیں، ملزم کی شرٹ اتاریں اور دکھائیں۔ جس کے بعد ملزم کی شرٹ اتار کر دکھائی گئی تو ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ تشدد کا کوئی نشان نہیں ہے۔عدالت نے کہا کہ اگر تشدد کی شکایت تھی تو میڈیکل چیک اپ کا آرڈر کرتے۔