چیف جسٹس یحیٰ آفریدی بھٹو پھانسی کیس میں اضافی نوٹ جاری کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ یہ فیصلہ عدالتی تاریخ کا افسوسناک باب ہے ۔ ٹرائل کورٹ اور اپیلٹ عدالت نے فیئر ٹرائل تقاضوں کو پورا نہیں کیا ۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کے مقدمے میں صدارتی ریفرنس پر 5 صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ جاری کیا ہے۔انہوں نے تحریر کیا کہ جسٹس منصور کے نوٹ سے ایک حد تک اتفاق ہے ۔ ریفرنس میں دی گئی رائے میں کیس کے میرٹ پر کسی حد تک بات کی گئی ۔ ضابطہ فوجداری کے تحت قتل کا ٹرائل براہ راست ہائیکورٹ نہیں کر سکتی۔سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے بعد میں تسلیم کیا کہ اُن پر بیرونی دباؤ تھا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم کے فیصلے سے جسٹس دوراب پٹیل، جسٹس محمد حلیم اور جسٹس جی صفدر شاہ کے جرات مندانہ اختلافات کو تسلیم کرنے کی اہمیت بھی اجاگر ہوتی ہے جو مشکل حالات کے باوجود اپنے موقف پر قائم رہے۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے اضافی نوٹ میں کہا کہ میری رائے میں ذوالفقار علی بھٹو کو شفاف ٹرائل سے محروم رکھا گیا، بھٹو کیس جیسے واقعات کا تدارک نہ کیا جائے تو عدالتی نظام کی شفافیت اور عوامی اعتماد کو خطرات لاحق رہتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اگر جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو اور سوانح حیات میں سامنے آنے والے واقعات اور حقائق نہ ہوتے تو شاید ریفرنس کبھی عدالت کے سامنے نہ آتا۔