سانحہ اے پی ایس میں ملزمان کا ٹرائل فوجی عدالت میں کیوں نہیں ہوا : سپریم کورٹ

سپریم کورٹ آئینی بنچ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کےٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت میں جسٹس جمال مندوخیل کے استفسار پروکیل نے بتایاکہ آرمی ایکٹ اورآفیشل سیکریٹ ایکٹ سانحہ آرمی پبلک سکول کے وقت بالکل موجود تھے. جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ گٹھ جوڑاورآرمی ایکٹ کے ہوتے ہوئے بھی فوجی عدالت میں ٹرائل کیوں نہیں ہوا آئین میں ترمیم کیوں کرنا پڑی وکیل خواجہ حارث نے بتایاکہ ترمیم میں ڈسپلن اورفرائض کی انجام دہی سے ہٹ کربھی کئی جرائم شامل کیے گئے.جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں آئینی بنچ نے کیس کی سماعت کی.وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل میں کہاکہ بات سویلین کے ٹرائل کی نہیں بلکہ سوال آرمی ایکٹ کے ارتکاب جرم کےٹرائل کا ہے جسٹس امین الدین خان نے کہاکہ ملزم خصوصی ٹرائل میں جرم کہ نیت نہ ہونے کادفاع لے سکتا ہے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ ملزم کہہ سکتا ہے کہ میرا یہ جرم کرنے کا ارادہ نہیں تھاجسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ نیت کا جائزہ توٹرائل کے دوران لیا جا سکتا ہے. وکیل خواجہ حارث نے 21 ویں آئین ترمیم پردلائل دیے تو جسٹس جمال مندوخیل نے کہا آئینی ترمیم اس لیےکی گئی کیونکہ ملٹری ٹرائل نہیں کرسکتے تھے وکیل خواجہ حارث بولے ملٹری ٹرائل ہوسکتا تھا آئینی ترمیم کی وجہ کچھ اورتھی جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے ملٹری کورٹ کوتسلیم کرتے ہیں قانون میں ترمیم کیلئے مخمل میں لگے پیوند کاجائزہ لینا ہے جسٹس نعیم اختر افغان نے کہاکہ اکیسویں ترمیم کیس کے فیصلے میں قانون سازی کی نیت کا پہلو بھی دیکھا گیا جسٹس حسن اظہر رضوی نے رضاربانی کے قانون سازی کے وقت آنسو بہانے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ سابق چیئرمین سینیٹ کے آنسو بھی تاریخ کا حصہ ہیں جسٹس جمال مندوخیل بولے ووٹ نہ دیتے تو زیادہ سے زیادہ سیٹ چلی جاتی رضا ربانی نے عدالت میں بتایا تھا انکے ہاتھ پاوں بندھے ہوئے تھےرضا ربانی بااصول آدمی ہیں ان کا ووٹ دیکررونا سمجھ آتا ہے انہیں علم تھا کہ انہوں نے دراصل کیا کیا ہے۔ عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی.وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔

اپنا تبصرہ لکھیں