وائرل ویڈیو بظاہر کسی پہاڑی مقام پر بنائی گئی ہے جہاں کچی سڑک کے اردگرد ویرانہ ہے۔ شروعات میں متعدد ویگو ڈالے اور جیپیں دیکھی جا سکتی ہیں جن کے باہر دن کی روشنی میں کئی افراد موجود ہیں۔اس ویڈیو میں تمام لوگ براہوی زبان میں بات کر رہے ہیں اور ان کا لہجہ وہی ہے جو کہ کوئٹہ اور مستونگ کے مختلف علاقوں میں بولا جاتا ہے۔بظاہر یہ افراد سرخ لباس اور گندمی چادر میں ملبوس ایک خاتون کو گاڑیوں سے کچھ دور کھڑا ہونے کا کہتے ہیں۔ اس دوران خاتون براہوی زبان میں کہتی ہیں کہ صرف گولی کی اجازت ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔اس کے بعد وہاں پر موجود مرد یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ قرآن مجید ان کے ہاتھ سے لے لو تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ قرآن خاتون کے ہاتھ میں تھا یا مرد کےپاس تھا.خاتون اس کے بعد کوئی مزاحمت نہیں کرتیں بلکہ خاموشی سے گاڑیوں سے دور کھڑی ہو جاتی ہیں۔ویڈیو میں چند لمحوں کے لیے خاموشی چھا جاتی ہے جبکہ اس کے بعد ایک، ایک کر کے چند گولیاں چلائی جاتی ہیں۔ویڈیو میں یہ معلوم نہیں ہو رہا ہے کہ پہلے مرد کو گولی ماری گئی یا خاتون کو تاہم پہلے مرحلے کی گولیاں چلانے کے بعد یہ آواز سنائی دی جاتی ہے کہ اُس کو مار دو جس پر بہت زیادہ گولیاں چلانے کی آواز آتی ہے۔اس دوران ایک شخص کسی ویڈیو بنانے والے پر ناراضگی کا اظہار بھی کرتا سنائی دیتا ہے جس کے بعد خاتون پر کوئی شخص دوبارہ چند گولیاں چلاتا ہے۔پولیس نے اب تک مقتولین اور ملزمان کی شناخت یا جائے وقوعہ کے مقام کی تصدیق نہیں کی ہے۔ترجمان بلوچستان حکومت کے مطابق واقعے کا مقام معلوم کر لیا گیا ہے اور ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ یہ افسوسناک واقعہ عیدالاضحیٰ کے دنوں میں پیش آیا، تاہم متاثرہ خاندانوں کی جانب سے واقعے کی کوئی رپورٹ درج نہیں کرائی گئی۔ ویڈیو میں نظر آنے والے افراد کا ڈیٹا حاصل کر لیا گیا ہے اور نادرا کے ذریعے ملزمان کی شناخت کی جا رہی ہے جبکہ 24 گھنٹوں کے اندر ایک ملزم کو گرفتار بھی کر لیا گیا ہے۔شاہد رند نے یہ بھی بتایا کہ لاشوں کی بازیابی کا عمل تاحال باقی ہے.
