تحقیقاتی کمیٹی نے صحافی خاور حسین کی موت کو خود کشی قرار دیدیا کمیٹی نے 8 صفحات پر مشتمل رپورٹ جمع کروا دی جبکہ میڈیکل ریکارڈ اس کے علاوہ ہے ۔سندھ پولیس نے 8 صفحات پر مشتمل تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا کہ تمام شواہد کے بعد کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ سینئر رپورٹر خاور حسین نےخودکشی کی ہے۔تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق واقعے کے دوران گاڑی کے قریب کوئی شخص نہیں آیا۔ ڈی آئی جی عرفان بلوچ کے مطابق تحقیقات میں سی سی ٹی وی فوٹیج کو بھی اہم شواہد کے طور پر دیکھا گیا تمام شواہد کے بعد کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ خاور حسین نے خودکشی کی۔رپورٹ میں لکھا گیا کہ کراچی سے لے کر سانگھڑ تک خاور حسین کے سفر میں دستیاب سی سی ٹی وی فوٹیجز کا جائزہ لیا گیا مرحوم خاور حسین کا ہوٹل کی پارکنگ میں داخل ہونے سے خودکشی تک ویڈیوز کا تمام پہلوؤں سے جائزہ لیا گیا۔ میڈیکل رپورٹ اور پوسٹمارٹم رپورٹ بھی خودکشی کا کہتی ہے خودکشی کی وجوہات جاننے کے لئے اہل خانہ کا آگے آنا ضروری ہے۔رپورٹ کے مطابق گھر پر پانی نہ ہونے کے باعث خاور حسین نے واٹر ٹینکر والے کو بھی فون کیا ڈرائیور کو پانی کی فراہمی کے چارجز ان لائن ٹرانسفر کیےہوٹل ہی نہیں گاڑی کے اطراف کی تمام سی سی ٹی وی فوٹیجز حاصل کی گئیں گاڑی کی موجودگی کے دوران کوئی شخص گاڑی کے قریب نہیں آیا۔تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خاور حسین کے موبائل فون کا کال ڈیٹا ریکارڈ حاصل کیا گیا ان سے رابطے میں آخری متعدد افراد کے بیانات بھی لیے گئے.رپورٹ میں بتایا گیا کہ انتہائی قریب سے چلائی گئی گولی نے خاور حسین کے سر کی دائیں اور بائیں ہڈیوں اور دماغی حصے کو شدید نقصان پہنچای یہ عام حالات میں موت واقع ہونے کے لیےکافی ہے۔21 اگست کو ڈان نیوز کے مرحوم رپورٹر خاور حسین کے دوسرے پوسٹ مارٹم کی عبوری رپورٹ بھی سامنے آگئی تھی.خاور حسین کی اچانک موت پر تحقیقات کرنے والی 3 رکنی میڈیکل کمیٹی میں شامل پولیس سرجن لیاقت یونیورسٹی ہسپتال ڈاکٹر وسیم خان نے بطور چیئرمین، لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کے پروفیسر ڈاکٹر وحید علی اور ایڈیشنل پولیس سرجن ڈاکٹر محمد عدیل راجپوت کے بطور کمیٹی رکن کی حیثیت سے دستخط موجود ہیں جبکہ پولیس کی تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی آزاد خان تھے جبکہ کمیٹی کے دیگر ارکان میں ڈی آئی جی عرفان بلوچ اور ایس ایس پی عابد بلوچ شامل تھے۔
