امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مرکزی بینک کے چیئرمین پر تنقید اور انہیں عہدے سے ہٹانے کی دھمکی کے نتیجے میں امریکی معیشت پر سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ایک بار پھر دھچکا لگا ہے. صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے فیڈرل ریزرو کے چیئرمین پر جاری تنقید نے امریکی معیشت پر سرمایہ کاروں کے اعتماد کو مزید مجروح کردیا ہے جس کے باعث عالمی مارکیٹ میں امریکی ڈالر تین سال کی کم ترین سطح کے قریب پہنچ گیا.صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکہ کے مرکزی بینک کے سربراہ جیروم پاول پر تنقید کرتے ہوئے شرح سود میں کمی نہ کرنے پر انہیں بڑا نقصان اٹھانے والا قرار دیا گیا ٹرمپ نے پیر کو ٹروتھ سوشل پر پوسٹ کرتے ہوئے فیڈ چیئرمین جیروم پاول کو بڑا ناکام شخص قرار دیا اور زور دیا کہ وہ ابھی شرح سود میں کمی کریں بصورت دیگر معاشی سست روی کا خطرہ ہے۔جس کے بعد امریکی اسٹاک اور ڈالر کی قیمت میں تیزی سے کمی واقع ہوئی۔ٹرمپ نے کہا کہ معیشت اس وقت تک سست ہوسکتی ہے جب تک کہ فیڈ چیئرمین شرح سود کو کم نہیں کرتے ٹرمپ نے مرکزی بینک کے سربراہ کو طنزیہ طور پر مسٹر ٹو لیٹ قرار دیا۔اس صورت حال کے نتیجے میں پیر کو متعدد کرنسیوں کے مقابلے میں ڈالر 97.923 تک گر گیا جو مارچ 2022 کے بعد سے کم ترین سطح ہے سوئس فرانک کے مقابلے میں کرنسی بھی ایک دہائی کی کم ترین سطح پر آگئی جب کہ یورو کی قدر 1.15 ڈالر سے اوپر چلی گئی۔خطرے کے لحاظ سے حساس سمجھا جانے والا آسٹریلوی ڈالر بھی پیر کو 0.6436 امریکی ڈالر کی چار ماہ کی بلند ترین سطح تک پہنچ گیا اور تازہ ترین سیشن میں تقریباً اسی سطح پر برقرار رہی جہاں اس کی قیمت 0.6414 امریکی ڈالر تھی۔امریکی کرنسی جاپانی ین کے مقابلے میں 140.99 پر تھی، جو پیر کے سات ماہ کی کم ترین سطح 140.48 کے قریب ہے۔ برطانوی پاؤنڈ 1.3376 ڈالر پر مستحکم رہا، جو پیر کو ستمبر کے بعد پہلی بار 1.3421 تک پہنچا تھا۔ نیوزی لینڈ کا ڈالر 5 ماہ سے زائد عرصے میں پہلی بار 0.6000 ڈالر کی سطح پر پہنچ گیا۔رپورٹ کے مطابق مرکزی بینک کے سربراہ کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ کے بڑھتے ہوئے تنازعہ کے اثرات امریکی مارکیٹوں میں عدم استحکام پیدا کر رہے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ پیر کے روز S&P 500 اسٹاک مارکیٹ انڈیکس تقریباً 2.4 فیصد تک گر گیا اور سال کے آغاز سے لے کر اب تک اس نے اپنی قدر کا تقریباً 12فیصد کھو دیا ہے۔جبکہ ڈاؤ جونز اسٹاک مارکیٹ 2.5 فیصد گری، اور نیس ڈیک میں 2.5 فیصد سے زائد کمی واقع ہوئی۔ اس سال اب تک، ڈاؤ تقریباً 10 فیصد نیچے ہے، اور نیس ڈیک تقریباً 18 فیصد نیچے پہنچ چکا ہے۔معاشی ماہرین کے مطابق ٹرمپ کی جانب سے بھاری محصولات اور ان کی تجارتی پالیسیوں پر غیر یقینی صورتحال نے عالمی منڈیوں کو بحران میں ڈال دیا ہے. جس کے نتیجے میں ڈالر کمزور ہو گیا ہے کیوں کہ سرمایہ کاروں نے امریکا سے پیسہ نکال لیا ہے۔