پرنس کریم آغا خان کی زندگی پر ایک نظر

اسماعیلی امامت کے دیوان کے مطابق پرنس کریم آغا خان اسماعیلی مسلم کمیونٹی کے 49 ویں امام یعنی روحانی لیڈر تھے.اسماعیلی کمیونٹی کے مطابق پرنس کریم آغا خان پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی حضرت بی بی فاطمہ اور پیغمبر اسلام کے کزن حضرت علی علیہ سلام کی نسل سے تھے.پرنس کریم آغا خان 1936 میں سوئٹزرلینڈ میں پیدا ہوئے اور بچپن کے ابتدائی ایام نیروبی میں گزارے. بعد میں وہ سوئٹزرلینڈ واپس آئے اور ہارورڈ میں اسلامی تاریخ کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکا جانے سے پہلے خصوصی لی روزی اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ 1957 میں سر سلطان محمد آغا خان سوم کی وفات کے بعد اُن کے پوتے شہزادہ کریم کو 20 سال کی عمر میں اپنے والد شہزادہ علی خان کے بجائے موروثی پیشوا اور اسماعیلی برادری کا روحانی سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔آغا خان سوم کی وفات کے بعد دنیا بھر میں شہزادہ کریم کی تخت نشینی کی رسومات شروع ہوئیں اور 23 جنوری 1958 کو کراچی میں بھی پرنس کریم آغا خان کی رسم تخت نشینی ادا کی گئی۔ یہ تقریب نیشنل سٹیڈیم میں منعقد ہوئی جس میں اس وقت کے پاکستانی صدر اسکندر مرزا اور وزیرا عظم فیروز خان نون نے بھی شرکت کی۔ تقریب میں شہزادہ کریم آغا خان کے تقریباً ڈیڑھ لاکھ پیروکار بھی موجود تھے۔1969 میں پرنس کریم آغا خان نے ایک انگریز خاتون سے شادی کر لی جن کا اسلامی نام سلیمہ رکھا گیا۔ اس شادی کے مہمانوں میں برطانیہ کی شہزادی مارگریٹ، ہالینڈ کی شہزادی برن ہارڈ اور ایران کے شہزادے اشرف پہلوی بھی شامل تھے۔سلیمہ سے شہزادہ کریم آغا خان کے تین بچے ہوئے جن میں زہرہ آغا خان، رحیم آغا خان اور حسین آغا خان شامل ہیں ۔ شادی کے 26 سال بعد 1995 میں دونوں کے درمیان طلاق ہو گئی۔ 1998 میں کریم آغا خان نے دوسری شادی انارا نامی خاتون سے کی جن سے ایک بیٹا علی محمد آغا خان پیدا ہوا، مگر چند سال بعد 2011 میں اُن کی انارا سے بھی طلاق ہو گئی۔وہ گھوڑوں کے شوقین تھے اور فرانس میں گھڑ دوڑ اور بریڈنگ کے سب سے بڑے ادارے کے مالک تھے۔ ان کے مشہور ترین گھوڑوں میں شیرگربھی تھا جس نے 1981 میں ایپسن ڈربی ریس میں رکارڈ قائم کیا تھا۔ اسے فروری 1983 میں آئرلینڈ کے بالیمنی اسٹڈ فارم سے اغوا کیا گیا تھا، اور تاوان کا مطالبہ کیا گیا تھا، جس میں مافیا، لیبیا کے سابق رہنما معمر قذافی اور آئی آر اے کو مشتبہ قرار دیا گیا تھا۔تاہم آغا خان کی جانب سے کوئی پیسہ ادا نہیں کیا گیا تھا، اور گھوڑے کا کوئی سراغ کبھی نہیں ملا تھا۔انھوں نے ایک شاہانہ طرز زندگی گزاری، وہ بہاماس میں ایک نجی جزیرے، ایک لگژری یاٹ اور ایک نجی طیارے کے مالک بھی تھے۔فوربز میگزین کے مطابق 2008 میں شہزادے کی دولت کا تخمینہ ایک ارب ڈالر لگایا گیا تھا۔ انھوں نے وراثت میں ملی دولت کو یورپ میں گھوڑوں کی افزائش نسل سمیت مختلف کاروبار میں سرمایہ کاری کر کے بڑھایا تھا۔ انھوں نے منصب امامت سنبھالنے کے بعد آغا خان ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا اور رفاحی کاموں کے ایک طویل سلسلے کا آغاز کیا جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔یہ ادارہ دنیا کے تقریباً 35 ممالک میں غربت اور انسانی زندگی کا معیار بہتر بنانے میں مصروف عمل ہے۔ آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کے ذیلی اداروں میں آغا خان فاؤنڈیشن، آغا خان ہیلتھ سروسز، آغا خان پلاننگ اینڈ بلڈنگ سروسز، آغا خان اکنامک سروسز اور آغا خان ایجنسی فار مائیکرو فنانس شامل ہیں جن کی نگرانی شہزادہ کریم آغا خان خود کرتے تھے۔آغا خان فاؤنڈیشن نے پاکستان کے شمالی علاقہ جات گلگت بلتستان کی ترقی میں بھی بڑا اہم کردار ادا کیا۔ 1980 میں آغا خان فاؤنڈیشن نے اس خطے میں آغا خان رورل سپورٹ پروگرام، آغا خان ہیلتھ سروسز اور دیگر فلاحی اداروں کی بنیاد رکھی جو آج بھی اس علاقے کی ترقی اور خوش حالی میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں